برطانوی مغرب کی ہندوستانی نوآبادیات میں تین ہزار غلام سالانہ مہیا کئے جائیں۔ ۱۶۷۹ء اور ۱۶۸۹ء کے درمیان صرف دس برس کی مدت میں کم وبیش ساڑھے چار ہزار غلام ہر سال برطانوی نوآبادیات میں آباد کئے جاتے رہے۔ فرانس کرونے ۷؍مارچ ۱۶۸۷ء کو ان غریبوں کی سرگزشت لکھتے ہوئے بیان کیا ہے کہ: ’’اس جگہ کی سب سے بڑی تجارت ان غلاموں کی ہے جن کو یہاں لایا جاتا ہے۔ یہ لوگ یہاں بالکل مادرزاد برہنگی کے ساتھ آتے ہیں اور ان کے گاہک ان کا منہ کھول کھول کر دیکھتے ہیں اور ان کا امتحان گھوڑوں اور چوپاؤں کی طرح کرتے ہیں۔‘‘ ۱۷۱۳ء میں انگریزوں اور اسپینیوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس کی رو سے انگلینڈ نے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ اسپین والوں کو تیس سال تک برابر چار ہزار آٹھ سو غلام سالانہ مہیا کرتا رہے گا۔ غلاموں کی تجارت سے جو نفع حاصل ہوتا تھا انگلینڈ اور اسپین دونوں کے بادشاہ اس میں ایک حصے کے شریک تھے۔ افریقہ کے غلاموں کی تجارت کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ یہاں تک کہ ۱۷۸۸ء میں جب غلامی کے انسداد کے لئے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا گیا تو اندازہ کیا جاتا ہے کہ اس وقت افریقہ سے ہر سال دو لاکھ غلام لے جائے جاتے تھے۔ جن میں سے ایک لاکھ امریکہ وغیرہ اور بقیہ افریقہ کے مشرقی ساحل سے ایران اور کچھ تھوڑے سے وسط افریقہ سے ترکی اور مصر لے جائے جاتے تھے۔‘‘ (بحوالہ اسلام میں غلامی کا تصور، مولانا سعید احمد اکبر آبادی ص۴۶)
غلامی کو ختم کرنے کے نام نہاد دعویداروں کے بلند وبانگ دعوؤں کے باوجود ان کے پاس اس وقت بھی پچاس لاکھ غلام موجود تھے۔ جب کہ مسلمانوں کے ہاں غلامی کا تصور کبھی کا معدوم ہوچکا تھا۔ چنانچہ ۱۶؍اپریل ۱۹۳۸ء کے اخبار ’’نیشنل کال‘‘ کی ایک خبر ملاحظہ ہو: ’’جنیوا میں جمعیت اقوام کی مشورہ کمیٹی جو چند ممبران پر مشتمل ہے اور جو غلامی کے مسئلے پر غور وخوض کرنے کے لئے مقرر کی گئی ہے۔ اس نے ۳؍مارچ سے ۱۲؍اپریل ۱۹۳۸ء تک اپنے اجلاس کئے۔ ۱۹۳۰ء لیگ اسمبلی لارڈ سیل نے برطانوی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں اب بھی کم از کم پانچ ملین یعنی پچاس لاکھ غلام موجود ہیں۔ یہ سب اس کے باوجود ہے کہ ۱۹۲۶ء میں جمعیت اقوام کی مجلس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ دستخط کرنے والی حکومتیں جن کی تعداد ۲۸ تھی۔ اپنے اپنے علاقوں میں غلاموں کی تجارت کو تشدد آمیز حکمت عملی سے کام لے کر بالکل ختم کر دیں گی۔ ان حکومتوں میں امریکا کی ریاست ہائے متحدہ بھی شامل تھیں۔ اس مشورہ کمیٹی کے تقرر کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ غلام حاصل کرنے کے لئے جو باقاعدہ اور منظم حملے ہوتے تھے وہ رک گئے۔‘‘
(بحوالہ اسلام میں غلامی کا تصور ص۴۸)