غرض غلامی کا رواج یہودیت، عیسائیت، ہندومت، تمام یورپی اقوام اور قبل از اسلام کفار ومشرکین سب کے ہاں تھا۔ مگر غلاموں کے ساتھ حسن سلوک، ان کے حقوق کی پاسداری اور ان کی آزادی کے فضائل جتنا اسلام اور پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمائے، اتنا کسی دوسرے مذہب میں نہ تھے۔
دیکھا جائے تو اسلام کو غلامی کے مسئلے میں طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے والوں کا دامن اس مسئلے میں سب سے زیادہ داغدار ہے۔ کیونکہ اسلام کے سوا کسی مذہب میں بھی غلاموں کے اخلاقی اور معاشرتی کسی قسم کے حقوق کا ذرہ بھر تذکرہ نہیں تھا۔ بلکہ بائبل میں تو صرف غلاموں کو اس کی تلقین تھی کہ وہ اپنے آقاؤں کی ایسی اطاعت کریں۔ جیسے کوئی عیسائی اپنے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کیا کرتا ہے اور غلاموں کو تلقین تھی کہ اگر کوئی آقا کے پاس سے بھاگ جائے تو واپس اپنے آقا کے پاس چلا جائے۔ اس کے مقابلے میں غلاموں کے آقاؤں کو ایسی کوئی ہدایت نہ تھی کہ وہ اپنے غلاموں کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں؟ اور نہ ہی اس پر کوئی قدغن تھی کہ کوئی شخص کسی آزاد کو غلام بنالے۔ یہی وجہ ہے کہ افریقہ کے نیگروؤں کو عیسائیوں کے ہاں پکڑ پکڑ کر غلام بنایا جاتا تھا۔ چنانچہ غلامی کی رسم ختم کرنے کے دعویداروں کے منہ پر اس سے زیادہ زور دار طمانچہ کیا ہوگا کہ انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس کا مقالہ نگار لکھتا ہے کہ: ’’۱۴۲۲ء میں گنزلس نے دس غلام پرتگال کے شاہزادہ ہنری کو بطور تحفہ پیش کئے۔ ۱۴۴۳ء میں ننیز ٹریسٹن افریقہ کے لئے ایک مہم پر بحری راستے سے روانہ ہوا اور چودہ غلاموں کو لے کر واپس آیا۔ افریقہ کے لوگ فطرتاً ان حملوں کو ناپسند کرتے تھے۔ جو ان کو غلام بنانے کی غرض سے کئے جاتے تھے۔ یورپین تاجر اپنے حملوں کے عذر پیدا کرنے کے لئے اہل افریقہ میں آپس میں جنگ کرادیتے تھے۔ ۱۵۶۲ء میں سرجان ہاکنگ گونیا کے لئے روانہ ہوا اور تین سو غلام حاصل کئے۔ پھر ان کو فروخت کر کے انگلینڈ چلا آیا۔ فرانسیسی، اسپینی اور ڈچ ان سب کے ہاں غلاموں کی تجارت کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ لیکن انگریزوں کے ہاں اس کا سراغ چارلس کے اس فرمان تک نہیں ملتا۔ جو اس نے ۱۶۳۱ء میں افریقہ کمپنی کے نام اس مضمون کا لکھا تھا کہ وہ برطانوی علاقوں کے لئے افریقی غلام مہیا کرے۔ ۱۶۴۰ء میں تیرھویں لوئس نے ایک فرمان اس مضمون کا شائع کیا کہ تمام وہ افریقی جو فرانس کی نوآبادیات میں سکونت رکھتے ہیں۔ بہرحال غلام بنائے جاسکتے ہیں۔ ۱۶۵۵ء میں کرومویل نے جمیکا کو اسپین والوںسے چھینا تو دیکھا کہ وہاں پندرہ سو سفید فام اور اتنے ہی نیگرو غلام موجود ہیں اور خود وہاں کے رہنے والوں کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ ۱۶۶۲ء میں تیسری افریقہ کمپنی قائم ہوئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ