مرزاقادیانی نے اس جگہ یہی طریق اختیار نہیں کیا؟ کیا یہ رسول پاکﷺ کی توہین نہیں؟
اور اپنے آپ کو (بظاہر) غیرشعوری طور پربرتر دکھانے کے لئے اپنے نشانوں کو دس لاکھ لکھتے ہیں اور ایک اور جگہ پچاس لاکھ بھی لکھا ہے اور مزے کی بات کہ چند سطروں میں دس لاکھ نشانات سمو دیئے، پڑھئے اور سردھنئے: ’’ان چند سطروں میں جو پیشین گوئیاں ہیں وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس لاکھ سے زیادہ ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اول درجہ پر خارق عادت ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ۵ ص۵۶، خزائن ج۲۱ ص۷۲) کیا یہ رسول پاکﷺ کی توہین نہیں؟
خارق عادت اس کو کہتے ہیں جس میں کوئی انسانی ہاتھ نظر نہ آئے اور جس کی مثال اس سے پہلے نہ ہو۔ میری قادیانی دوستوں سے اپیل ہے کہ دس لاکھ کو بھول جاتے ہیں، ایک لاکھ بھی نہیں، دس ہزار بھی نہیں، ایک ہزار بھی نہیں، صرف سو (۱۰۰) ہی خارق عادت نشان دکھادیں، چلو یار، دس ہی خارق عادت نشان دکھادو؟ بھائی اگر خارق عادت ممکن نہیں تو تسلیم کرو اور دوسرے عام نشانات؍ کرامات ہی دکھا دو؟
ممکن ہے کہ کوئی قادیانی دوست اپنے دل کی تسلی کے لئے یا بحث برائے بحث کے لئے کہیں کہ رسول کریمﷺ کے معجزات ہیں اور مرزاقادیانی کے نشانات ہیں اور معجزات اور چیز ہیں اور نشانات اور چیز ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مرزاقادیانی نے نشان اور معجزہ ایک ہی چیز قرار دیئے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’امتیازی نشان جس سے وہ شناخت کیا جاتا ہے پس یقیناً سمجھو کہ سچا مذہب اور حقیقی راست باز ضرور اپنے ساتھ امتیازی نشان رکھتا ہے اور اسی کا نام دوسرے لفظوں میں معجزہ اور کرامت اور خارق عادت امر ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ ج۵ ص۵۰، خزائن ج۲۱ ص۶۳)
اس فقیر نے جو نقطہ نظر پیش کیا ہے کہ مرزاقادیانی اپنی نظر میں واپنی اولاد اور جماعت باعلم طبقہ میں آنحضورﷺ سے برتر تھے یا نہیں، یہ حوالہ دیکھئے ان کے ایک صحابی کا،
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں
(اخبار بدر نمبر۴۳، ج۲ص۱۴، قادیان، ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ئ) اور اس نظم پر مرزا غلام قادیانی نے ناصرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ وہ قطعہ گھر کے اندر لے گئے اور وہاں اپنے کمرے میں اس کو لٹکایا (اپنے صحابی کو نہیں بلکہ اس کی پیش کردہ نظم کو) کاش کوئی غیرت مند اس وقت مرزاقادیانی اور ان کے اس صحابی قاضی ظہورالدین اکمل کو الٹا لٹکا دیتا تو لاکھوں لوگوں کے ایمان تباہ ہونے سے بچ جاتے اور یہ مرزاقادیانی کی وفات سے تقریباً پونے دو سال قبل کی بات ہے۔ اس کا مطلب ہے