مرزاقادیانی کہتا ہے: ’’مگر تم خوب توجہ کرکے سن لو کہ اب اسم محمد کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں۔ یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہوچکا۔ سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں۔ اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہوکر میں ہوں۔‘‘ (اربعین، ص۱۴، خزائن ج۷۱ص۴۴۶،۴۴۵) دیکھیں کس چابکدستی کے ساتھ رسول پاکﷺ کا وجود بے ضرورت قرار دیا جارہا ہے اور اپنی ضرورت بتائی جارہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ذہن میں یہ بات بٹھانے کی سازش ہورہی ہے کہ رسول کریمﷺ کی تعلیم نعوذباﷲ جلاتی ہے اور برداشت کے قابل نہیں لیکن میں بطور فلٹر کے ہوں یا پھر جس طرح ایرکنڈیشنر گرم ہوا کو ٹھنڈی بناکر پیش کرتا ہے اس طرح مرزاقادیانی رسول پاک کی جلانے والی تعلیم کو چاند کی ٹھنڈی کرنیں بناکر پیش کرنے کے مدعی ہیں جو تمہیں سکون بخشیں گی۔ کیا رسول پاکﷺ کی تعلیم سورج کو جلانے والی کرنیں ہیں؟ اگر نہیں اور یقینا تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی تعلیم یقینا علیحدہ ہے اور یہ ایسا منحوس چاند مرزاقادیانی کی پیدائش کے ساتھ ہی عالم اسلام کے سر پر چڑھا ہے کہ عالم اسلام کی غلامی ہی نہیں ختم ہورہی بلکہ دن بدن امت مسلمہ اس جماعت کی ریشہ دوانیوں سے مزید کمزور ہورہی ہے! کیا یہ رسول پاکﷺ کی توہین نہیں؟ بات اسی طرح بڑھاتے بڑھاتے مرزاقادیانی اپنے آپ کو نبی کریم سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی روحانیت کو رسول کریمﷺ کی روحانیت سے بہتر ثابت کرنے کے لئے کیا الہامی عبارت لکھتے ہیں: ’’اور جس نے اس بات کا انکار کیا کہ نبیﷺ کی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے جیساکہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی پس اس نے حق کا اور نص قرآن کا انکار کیا۔ بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں میں بہ نسبت ان سالوں کے اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے۔ بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح۔‘‘ (خطبہ الہامیہ، ص۱۸۱، خزائن ج۱۶ ص۲۷۱، ۲۷۲) کیا تیرہ صدیوں کے مجددین، صحابہؓ، آئمہ کہیں سے بھی کوئی حدیث یا قرآنی تفسیر میں یہ معنی دکھاسکتے ہیں کہ رسول کریم دوبارہ مبعوث ہوں گے اور پہلے سے بہتر، مکمل اور پوری شدومد سے مبعوث ہوں گے؟ کیا یہ رسول پاکﷺ کی توہین نہیں؟
آپ نے دیکھا کہ کس طرح شروع میں اپنے آپ کو صرف ظل یعنی سائے کی حیثیت سے پیش کرکے آہستہ آہستہ اونٹ کی طرح مالک کو خیمے سے ہی بے دخل کیا جارہا ہے۔ مرزاقادیانی نے ظل اور بروز کے نام سے دراصل اپنی ضلالت اور ذلت اور ناشکری کا جو سفر شروع کیا تھا اس کا کہیں اختتام نظر نہیں آتا اور یہ جو بات میں کہہ رہا ہوں پہلے دیئے گئے اور آئندہ پیش کئے جانے