ظلی نبوت نے مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم کے پہلو بہ پہلو لاکھڑا کیا۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۱۳، ازمرزا بشیر احمد ایم اے) ان حوالوں سے کم ازکم یہ تو ثابت ہوگیا کہ مرزاقادیانی اور ان کے متبعین ان کو نعوذباﷲ نبی کریمﷺ کے برابر سمجھتے ہیں۔ کیا یہ رسول پاکﷺ کی توہین نہیں؟
لیکن کیا ظل، اصل کے برابر ہوسکتا ہے؟ کیا سایہ وجود کی حقیقی برابری کرسکتا ہے؟ رہی ظل اور بروز کی بات تو اس کا ٹنٹا بھی مرزاقادیانی کے بیٹے مرزا بشیراحمد نے صاف کردیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی اسی طرح کے نبی تھے جس طرح دوسرے انبیائ۔ اور یہ ظل، بروز وغیرہ کی بحث صرف لوگوں کو سمجھانے کے لئے تھی۔ ’’اس جگہ میں یہ بات بھی بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مضمون میں جہاں کہیں بھی حقیقی نبوت کا ذکر ہے وہاں اس سے مراد ایسی نبوت ہے جس کے ساتھ کوئی نئی شریعت ہو۔ ورنہ حقیقی کے لغوی معنی کے لحاظ سے تو ہر ایک نبوت حقیقی ہوتی ہے جعلی یا فرضی نہیں اور مسیح موعود بھی حقیقی نبی تھا۔ اور جہاں کہی بھی مستقل نبوت کا ذکر ہے وہاں ایسی نبوت مراد ہے جو کسی کو بلاواسطہ بغیر اتباع کسی سابق نبی کے ملی ہو ورنہ مستقل کے لغوی معنوں کے لحاظ سے تو ہر ایک نبوت مستقل ہوتی ہے عارضی نہیں اور مسیح موعود بھی مستقل نبی تھا۔‘‘ (کلمتہ الفصل، مصنفہ مرزا بشیر احمد، ص۱۱۸،۱۱۹) یہ حوالہ ہمیں بتارہا ہے کہ لوگوں کو بروز، ظل اور غیر شرعی، غیر مستقل نبی وغیرہ کی اصطلاحیں صرف اور صرف دنیا کو دھوکا دینے کے لئے تھیں ورنہ مرزاقادیانی اپنے آپ کو نہ تو اپنے سے پہلے نبی کا تابع سمجھتے ہیں اور نہ ہی غیرمستقل نبی ہیں۔
مرزا غلام قادیانی کی پیش کردہ ہر ہر بات میں کئی کئی سنپولئے چھپے ہوتے ہیں۔ ذرا یہ تحریر دیکھئے: ’’بعض نادان کہتے ہیں کہ عربی میں کیوں الہام ہوتا ہے۔ اس کا یہی جواب ہے کہ شاخ اپنی جڑ سے علیحدہ نہیں ہوسکتی۔ جس حالت میں یہ عاجز نبی کریمﷺ کی کنار عاطفت میں پرورش پاتا ہے۔ جیسا کہ براہین احمدیہ کا یہ الہام بھی اس پر گواہ ہے کہ تبارک من علم وتعلم۔ بہت برکت والا وہ انسان ہے جس نے اس کو فیض روحانی سے مستفیض کیا یعنی سیدناﷺ اور دوسرا بہت برکت والا یہ انسان ہے جس سے اس نے تعلیم پائی۔ تو پھر جب معلم اپنی زبان عربی رکھتا ہے ایسے ہی تعلیم پانے والے کو الہام بھی عربی میں چاہیے۔ تامناسبت ضائع نہ ہو۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، ص۲۳، خزائن ج۱۷ ص۷۱، حاشیہ) پہلی بات تو سلطان القلم مرزاقادیانی کا مبلغ علم قابل داد ہے کہ شاخ اپنی جڑ سے جدا نہیں ہوتی، شاخ اپنے تنے سے منسلک ہوتی ہے۔ دوسرے جڑ کو کوئی نہیں دیکھتا وہ چھپی