’’ہم تیرے وجود کو اس ملک کے لئے خدا کا ایک بڑا فضل سمجھتے ہیں اور ہم ان الفاظ کے نہ ملنے سے شرمندہ ہیں جن سے ہم اس شکر کو پورے طور پر ادا کرسکتے۔‘‘
(تحفہ قیصریہ، ص۱۴، خزائن ج۱۲ ص۲۶۶)
کتاب ملکہ وکٹوریہ کو بھیجنے کا مقصد واضح ہو جائے گا۔ فرماتے ہیں: ’’اس عاجز کو… وہ اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور محبت اور جوش اطاعت حضور ملکہ معظمہ اور اس کے افسروں کی نسبت حاصل ہے (عیسائی چرچ کی سربراہ ملکہ کے ساتھ ہی نہیں اس کے افسروں کے لئے بھی محبت وجوش اطاعت۔ناقل) جو میں ایسے الفاظ نہیں پاتا جن میں اس اخلاص کا انداز بیان کرسکوں۔ اس سچی محبت اور اخلاص کی تحریک سے جشن شصت سالہ جوبلی کی تقریب پر میں نے ایک رسالہ حضرت قیصرہ ہند دام اقبالہا کے نام سے تالیف کرکے اور اس کا نام تحفہ قیصریہ رکھ کر جناب ممدوحہ کی خدمت میں بطور درویشانہ تحفہ کے ارسال کیا تھا اور مجھے قوی یقین تھا کہ اس کے جواب سے مجھے عزت دی جائے گی اور اُمید سے بڑھ کر میری سرفرازی کا موجب ہوگا… مگر مجھے نہایت تعجب ہے کہ ایک کلمہ شاہانہ سے بھی ممنون نہیں کیا گیا … لہٰذا اس حسن ظن نے جو میں حضور ملکہ معظمہ دام اقبالہا کی خدمت میں رکھتا ہوں دوبارہ مجھے مجبور کیا کہ میں اس تحفہ قیصرہ کی طرف جناب ممدوحہ کو توجہ دلائوں اور شاہانہ منظوری کے چند الفاظ سے خوشی حاصل کروں۔‘‘
(ستارہ قیصریہ، ص۳،۴، خزائن ج۱۵ص۱۱۲،۱۱۱)
آگے پھر لکھتے ہیں: ’’میں دعا کرتا ہوں کہ خیروعافیت اور خوشی کے وقت خدا تعالیٰ اس خط کو حضور قیصرہ ہند دام اقبالہا کی خدمت میں پہنچا دے اور پھر جناب ممدوحہ کے دل میں الہام کرے کہ وہ اس سچی محبت اور سچے اخلاص کو جو حضرت موصوفہ کی نسبت میرے دل میں ہے، اپنی پاک فراست سے (عیسائی جوکہ مرزا قادیانی کے نزدیک اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے اس مذہب کی سربراہ کی پاک فراست۔ناقل) اسے شناخت کرلیں اور رعیت پروری کی رو سے مجھے پررحمت جواب سے ممنون فرمائیں۔‘‘ (ستارہ قیصریہ ص۴، خزائن ج۱۵ص۱۱۵)
دوسری طرف ان ہی عیسائی افسروں کو اپنی درخواست میں لکھتے ہیں: ’’سرکار دولتمدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کرچکی ہے (پچاس برس میں کم وبیش تین بالغ نسلیں آمنے سامنے ہوتی ہیں، اس کا مطلب کے نسل درنسل غیروں سے وفاداری اور اپنوں سے غداری کرتے آرہے ہیں۔ناقل) اور جس کی