احمدیہ، ص۴۹۹، خزائن ج۱ص۵۹۳) اب متشابہ لفظ کو کس طرح لپیٹ کر ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے بن رہے ہیں۔ کیا کوئی اﷲ تعالیٰ کا ایک عام نیک بندہ بھی نیکی کا پیغام پہنچانے کے لئے اس طرح کے حربے استعمال کرتا ہے؟ اور مرزاقادیانی کے دعوے تو بہت ہی بڑے ہیں، کیا ان دعووں کے لئے یہ طریق کار جائز ہے؟
’’ہاں یہ سچ ہے کہ آنے والے مسیح کو نبی بھی کہا گیا ہے اور اُمتی بھی … اسی لئے خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں بھی اس عاجز کا نام اُمتی بھی رکھا اور نبی بھی۔‘‘
(ازالہ اوہام، ص۵۳۲، ۵۳۳، خزائن ج۳ ص۳۸۶)
’’تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ ‘‘فتح اسلام‘‘ و’’توضیح المرام‘‘ و’’ازالہ اوہام‘‘ میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے، تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی روسے بیان کئے گئے ہیں ورنہ حاشا وکلا مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعویٰ نہیں …… بجائے لفظ نبی کے محدث کا لفظ ہر ایک جگہ سمجھ لیں اور اس کو یعنی لفظ نبی کو کاٹا ہوا خیال فرمالیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات، ج۱ص۳۱۴،۳۱۳) دیکھیں کیا دجل ہے۔ نبی کا لفظ استعمال کیا، لوگوں کا رویہ سخت دیکھ کر ایک دم بات بدل لی اور قدم کچھ دیر کے لئے پیچھے ہٹالئے۔ کیا نبی اﷲ ایسے ہی ہوتے ہیں؟
’’یہ بات سچ ہے کہ اﷲ جل شانہ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۰۷) محدث سے مثیل مسیح پر چھلانگ لگائی۔ اس سے پہلے مشابہت تھی۔
’’میں اسی الہام کی بناء پر اپنے تئیں وہ موعود مثیل سمجھتا ہوں جس کو دوسرے لوگ غلط فہمی کی وجہ سے مسیح موعود کہتے ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۰۷)
اب یہاں دیکھیں کہ مسیح موعود کا لفظ منہ میں ڈالا جارہا ہے، لفظ مسیح موعود قطعاً اسلامی اصطلاح نہیں ہے، اسلامی لٹریچر میں مسیح ابن مریم، یا عیسیٰ ابن مریم استعمال ہوا ہے۔ مسیح کے ساتھ موعود کا لفظ دنیا کو مغالطہ میں رکھنے کے لئے لگایا گیا ہے۔
اگر صرف مسیح کہتے تو تب بھی لوگوں کا ذہن فوراً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف جانا تھا اور براہ راست بھی اپنے کو عیسیٰ بن مریم نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ دونوں طرح فوراً لوگوں کے