انگلی پکڑتے پکڑتے گلے سے لٹک جاتے ہیں۔ مندرجہ ذیل حوالہ جات میری اس بات کی تصدیق کرتے ہیں!
’’کتاب براہین احمدیہ، جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم اور مامور ہوکر بغرض اصلاح وتجدید دین تالیف کیا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات، ج۱ ص۲۳) یہاں کسی وحی کا ذکر نہیں، صرف الہام تک بات کررہے ہیں جوکہ ولیوں کو بھی ہوتا ہے اور جس میں شریعت یا احکام نہیں ہوتے۔ ’’اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات، ج۱ص۲۴) اب یہاں سے کتنی پرکاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ کمالات کو مسیح کے مشابہ قرار دے رہے ہیں، برابر بھی نہیں حالانکہ بعد میں دعویٰ کہ ابن مریم سے غلام احمد بہتر ہے اور مسیح ابن مریم کے کوئی کمالات نہیں تھے۔ کیا جھوٹ سے آغاز شروع ہوا یا نہیں؟
’’اگر اس اشتہار کے بعد بھی کوئی شخص سچا طالب بن کر اپنی عقدہ کشائی نہ چاہے اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات، ج۱،۲۵) کس طرح طریقے سے آگے بڑھنے کا راستہ بنایا جارہا ہے لفظوں کے ہیر پھیر میں اتمام حجت تک جاپہنچے ہیں حالانکہ اس سے قبل کسی مجدد نے دعویٰ نہیں کیا کہ اس کے پاس حاضر نہ ہو تو اتمام حجت ہے۔
’’یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے اس اُمت کے لئے محدث ہوکر آیا ہے … اور بعینہ انبیاء کی طرح مامور ہوکر آتا ہے اور انبیاء کی طرح اس پر فرض ہوتا ہے کہ اپنے تئیں بآواز بلند ظاہر کرے اور اس سے انکار کرنے والا ایک حد تک مستوجب سزا ٹھہرتا ہے۔‘‘ (توضیح مرام ص۱۸، خزائن ج۳ص۶۰) اب مجدد سے اپنے کو محدث قرار دے لیا۔ کیا کسی نبی نے ایسا طریقہ کار اختیار کیا؟ کیا رسول کریمﷺ نے جن کی بعثت ثانیہ کا مرزاقادیانی جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں، نے ایسا کیا؟
حالانکہ مرزاقادیانی جانتے تھے کہ رسول کریمﷺ کا فرمان ہے: ’’اگر اس اُمت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمرؓ ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام، ص۲۳۶، خزائن ج۳ص۲۱۹) یہاں اگر کا لفظ بتارہا ہے کہ رسول کریمﷺ کم ازکم حضرت عمرؓ کے بعد کسی محدث کے آنے کا امکان بھی مٹارہے ہیں۔ اس کے باوجود دعویٰ محدثیت؟
مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں۔‘‘ (براہین