دعوے
مرزا قادیانی کے دعووں اور ان کے جواز کو ایک سرسری نظر سے دیکھ کر ہی ایک سمجھ دار انسان اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ یہ شخص یا مخبوط الحواس ہے یا پھر انتہائی مکار لیکن مرزا قادیانی مکار تو تھے ہی مگر ان کے ہدایتکار ان سے بھی بہت آگے تھے۔ انہوں نے بڑے طریقے سے مرزاقادیانی کے ذریعہ اپنے مقاصد کو آگے بڑھایا اور اب ان کی نسلوں کے ذریعہ اس کو چلارہے ہیں۔ یہاں ہم اپنے مؤقف کی وضاحت کے لئے کہ کس طرح بتدریج مرزاقادیانی نے دعووں کا سفر شروع کیا اور دعووں میں آگے بڑھے (یا بڑھائے گئے) اس جگہ ان کے اقرار وانکار کے دجل کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
ایک رات میں بے مثال روحانی انقلاب:۔ غالباً اسی سال کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک سفر کے دوران گورد اسپور میں تشریف فرما تھے کہ آپ کو ایک خواب میں دکھایا گیا کہ مولانا مولوی عبداﷲ غزنویؓ کا زمانہ وفات قریب ہے، آنکھ کھلنے کے بعد آپ نے محسوس کیا کہ ایک آسمانی کشش آپ کے اندر کام کررہی ہے۔ یہاں تک وحی الٰہی کا سلسلہ جاری ہوگیا اور پھر ایک ہی رات میں آپ کے اندر بے مثال روحانی انقلاب برپا ہوگیا۔
چنانچہ خود فرماتے ہیں: ’’وہی ایک رات تھی جس میں اﷲ تعالیٰ نے بتمام وکمال میری اصلاح کردی اور مجھ میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہوگئی جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادے سے نہیں ہوسکتی تھی۔‘‘ (بحوالہ نزول المسیح ص۲۳۷، خزائن ج۱۸ص۶۱۵) لیکن شیطان کے ہاتھ سے اور شیطان کے ارادے سے تو ہوسکتی ہے نا اور وہی ہوئی!
اس جگہ جو انتہائی اہم نکات ہیں ان کو ذہن میں رکھ کر چلیں تو مرزاقادیانی کے دعوؤں کی حقیقت بہت جلد واضح ہوجائے گی۔ مرزاقادیانی تسلیم کررہے ہیں کہ ایک رات میں ہی ان کی بتمام کمال اصلاح کردی گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کو مکمل طور پر بتادیا گیا کہ اب تک آپ جو کچھ بھی تھے آئندہ نبی اﷲ ہوں گے۔ ورنہ اور کونسی اصلاح تھی؟
اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کم ازکم اس وحی کے نازل ہونے تک اوّل اس بات کے قائل تھے: ’’اور گو وحی رسالت بجہت عدم ضرورت منقطع ہے لیکن یہ الہام کہ جو آنحضرتﷺ کے بااخلاص خادموں کو ہوتاہے یہ کسی زمانہ میں منقطع نہیں ہوگا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ اول، ص۲۱۵، خزائن ج۱ص۲۳۸، حاشیہ نمبر۱۱)