دین اسلام جن سے تازہ ہوا
جن سے رونق پذیر تھا ایمان
(اشاعتہ السنہ، ج۱۴،۴۲۰، بحوالہ رئیس قادیان ج دوم، ص۴۸۶،۴۸۷، مصنفہ مولانا رفیق دلاوری)
مرزاقادیانی کا اپنا اعتراف کہ ان کے اپنا کنبہ وعزیز واقارب ان کو کیا سمجھتے تھے: ’’جو لوگ میرے کنبے سے اور میرے اقارب ہیں کیا مرد اور کیا عورت مجھے میرے الہامی دعوے میں مکار اور دُکاندار خیال کرتے ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ص۱۶۱)
قصبہ کے باسیوں کے ساتھ
مرزاقادیانی کا دعویٰ نعوذباﷲ عین محمدﷺ ہونے کا ہے، رسول کریمﷺ کے متعلق کہتے ہیں کہ: ’’آنحضرتﷺ کو ہمیشہ محالفوں نے امین اور صادق تسلیم کیا۔‘‘ (ملفوظات، ج۸ ص۶۸) لیکن مرزاقادیانی کو دنیا تو دور کی بات ہے جس قصبہ میں رہتے ہیں اس کے باسیوں کا مرزاقادیانی کے بارہ میں کیا خیال ہے؟ عزیز واقارب کے اقوال کا اعترافی بیان تو پڑھ چکے اب مرزاقادیانی ہی کی زبانی کہ قادیان کے شہری ان کو کیا کہتے ہیں۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’قادیان میں لالہ ملاوامل نے لالہ شرمپت کے مشورہ سے اشتہار دیا جس کو قریباً دس برس گزر گئے اس اشتہار میں میری نسبت یہ لکھا کہ یہ شخص محض مکار، فریبی ہے اور صرف دُکاندار ہے۔ لوگ اس کا دھوکہ نہ کھائیں۔‘‘ (قادیان کے آریہ اور ہم، ص۱۱، خزائن۲۰، ص۴۲۵) کیا اس کے باوجود بھی کوئی گنجائش رہتی ہے؟
رویہ مسلمانوں کے ساتھ
مہدی علیہ السلام آکر تمام مسلمانوں کو ایک جھنڈے تلے اکٹھا کریں گے اس کے برعکس مرزاقادیانی آئے اور ان کی اپنی تحریر کے مطابق دنیا میں چورانوے (۹۴) کروڑ مسلمان تھے جن میں سے چند ہزار کو وہ اپنے پیچھے لگاسکے، ان چند ہزار کو مسلمان قرار دے دیا اور حکم دیا کہ بقیہ دنیا کے مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان سے عبادت، رشتہ ناطہ، سماجی تعلقات ختم کرلیں۔ مرزاقادیانی نے مرنے کچھ عرصہ پہلے دعویٰ کیا تھا کہ ان کو ماننے والوں کی تعداد چار لاکھ تک جاپہنچی ہے لیکن ان کے جنازہ میں جو لاہور میں مرنے کے تیسرے دن، قادیان میں ہوا تھا۔ جماعت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق قادیان کے رہائشیوں سمیت کل بارہ سو آدمی تھے۔
مرزاقادیانی نے مسلمانوں سے قطع تعلق کے لئے سب سے پہلے علماء کرام کو نشانہ بنایا اور اس نشانہ بازی میں جو زبان استعمال کی اس کی بے شمار مثالیں ہیں لیکن یہاں بطور نمونہ ایک آدھ مثال پیش خدمت ہے۔ مرزاقادیانی کی گل پاشیاں دیکھیں ’’اور لئیموں میں سے ایک فاسق آدمی کو دیکھتا