اور باقی رشتہ داروں سے ہمیشہ کے لئے ترک تعلق کی ناصرف قسم کھائی بلکہ خلاف دستور قسم نبھائی بھی۔ حالانکہ مرزاقادیانی کا اپنا وعدہ نبھانا دستور نہیں تھا۔
کیا نبیوں کا سلوک اور ادائیگی اپنے اہل خانہ سے ایسے ہی ہوتے ہیں؟ اپنا گھر اُجاڑا، اپنے بیٹے کا گھر اُجاڑا، پہلوٹھی کے بیٹے کو عاق کرکے اخباروں میں ۴۔۵صفحات پر مشتمل طویل اشتہارات چھاپے۔ ایسا تو کوئی شریف آدمی سوچ بھی نہیں سکتا، کجا ایسے عمل کرے۔
ساس جو ماں کے برابر ہوتی ہے اور پھر وہ ساس جوکہ قادیانی جماعت کی اُم المومنین کی ماں بھی کہلاتی ہے، اس ماں کے بارے میں مرزا قادیانی کو الہام ہوتا ہے: ’’اے عورت تیرے مکر بڑے ہیں۔‘‘ جس اُم کی اُم کے مکر بڑے ہوں گے تو بیٹی اگر آگے نہیں بڑھی یا برابر بھی نہیں تو کم ازکم کچھ اثر تو لیا ہوگا قادیانی اُم المومنین نے؟
مرزاقادیانی کے سسر میر ناصر نواب جوکہ محکمہ نہر میں نقشہ نویس تھے، کثیرالاولاد تھے اور مرزاقادیانی کی جب مذہب کی آڑ میں حرکات دیکھیں تو مرزاقادیانی کی حرکتوں سے کافی عرصہ نالاں رہے۔ انہوں نے ایک نظم مرزاقادیانی کی شان میں لکھی۔ بعد میں جب نوکری سے پنشن پاگئے تو مختلف حربوں سے ان کو قابو کرلیا۔ نظم کا کچھ حصہ پیش خدمت ہے۔
مہدی وقت ہے کوئی مشہور
کوئی بنتا ہے عیسائے دوران
نہ عیاں اس میں عیسوی برکت
نہ ہدایت کا اس میں نام ونشان
نیک سب اُٹھ گئے زمانہ سے
مابقی میں نہیں رہی ہے جان
حب دنیا نے گھیر رکھا ہے
ہے بہت ہی ضعیف اب ایمان
حب مولیٰ جہاں سے ہے معدوم
حرص دنیا میں پھنس گئے انسان
لذت نفس میں وہ ہیں سرگرم
آج کل ہیں جو پیشوائے جہان؎
مرغ بریاں کا شوق ہے ان کو
ہیں ملائیک خصائل جو انسان
قورمہ اور پلائو کھاتے ہیں
لوگ کہتے ہیں جن کو قطب زمان
جو ولایت میں ہیں قدم رکھتے
ان کی صدقہ پہ ہے فقط گزران
ٹھاٹھ ہیں ان کے سب امیرانہ
در دولت پہ ہیں کئی دربارن
رات دن ہیں عمارتیں بنتیں
مال کرتے ہیں مفت میں ویران
ہائے آتے نہیں نظر وہ لوگ
دیکھنے کو ترس گئی دل وجان
ہر صدر مین ہوئے ہیں اہل الحق
رہبر خلق وصاحب عرفان