کے حقوق ادا نہیں کرسکے۔ ان کی اس حالت کا علم ان کے کافی دوستوں کو بھی تھا اور بٹالوی صاحب یا کسی دوسرے دوست نے تشویش کا خط بھی بنام مرزا تحریر کیا تھا۔ یعنی وہاں صلائے عام تھی یا ران نکتہ دان کے لئے۔
مرزاقادیانی جب دہلی سے دوسری بیوی کو بیاہ کر لائے تو اپنی پہلی بیوی کو جس کے حقوق وہ پچیس سال سے ادا نہیں کررہے تھے پیغام بھیجا کہ ’’پہلے تو جیسا ہوتا رہا، ہوتا رہا، اب میں نے شادی کرلی ہے اگر تمہارے حقوق ادا نہ کروں گا تو گناہ گار ہوں گا یا تو اپنے حقوق چھوڑ دو، تمہیں خرچہ ملتا رہے گا یا پھر طلاق لے لو۔‘‘ (سیرت المہدی جدید ج۱ ص۳۰، روایت نمبر۴۱) اس عفیفہ کا جواب آیا کہ اس بڑھاپے میں طلاق یا حقوق کیا لوں گی بس مجھے خرچہ دے دیا کرو۔ مرزاقادیانی نے خرچہ کیا دینا تھا ان کے بیٹے مرزا سلطان نے ہی اپنی ماں کی کفالت سنبھالی۔
مرزاقادیانی نے دوسری شادی کے دو سال بعد ہی اپنے خاندان میں اپنی ایک رشتہ کی تقریباً پندرہ سالہ بھتیجی وبھانجی محمدی بیگم دُختر مرزا احمد بیگ عرف مرزا گاماں سے شادی کرنا چاہی مگر اس خاندان نے انکار کردیا اور اپنی بیٹی ضلع قصور کے رہائشی مرزا محمد سلطان کے ساتھ مرزاقادیانی کے تمام الہامی ڈراووں کے باوجود بیاہ دی اور مرزاقادیانی کے جھوٹے الہامات وہیں کے وہیں پڑے رہ گئے جس کی وجہ سے مرزاقادیانی کو آج تک بدنامیاں مل رہی ہیں۔
مرزاقادیانی نے اپنی بیوی پھجے دی ماں کو اور دونوں بیٹوں کو مجبور کیا کہ وہ باقی رشتہ داروں کو بھی ساتھ ملا کر محمدی بیگم کے والدین پر اس رشتہ کے لئے دبائو ڈالیں۔ اگر وہ مرزاقادیانی کی شادی محمدی بیگم سے کروانے میں ناکام رہے تو سنگین نتائج بھگتیں گے اور مرزاقادیانی کے بیوی بچوں نے یہ کام نہیں کیا کیونکہ وہ اس رشتہ کو ایک معصوم بچی پر ظلم سمجھتے تھے کہ ایک باون (۵۲) سالہ بوڑھا جو پہلی دونوں بیویوں کے حقوق ادا کرنے کے قابل نہیں، اب ایک اور لڑکی پر ظلم میں مرزاقادیانی کے شریک نہیں بنے۔
جس دن محمدی بیگم کا قصور کے رہائشی مرزا سلطان سے نکاح ہوا، مرزاقادیانی نے اپنے بڑے بیٹے مرزا سلطان کو دیوث اور دشمن اسلام قرار دے کر عاق کردیا۔
جس دن شادی ہوئی اسی دن پھجے کی ماں کو طلاق دے دی۔ جس دن شادی ہوئی اسی دن اپنے بیٹے مرزا فضل کو جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی سے مجبور کرکے اس کی بیوی عزت بی بی جوکہ محمدی بیگم کی پھوپھی زاد بہن اور مرزاقادیانی کے برادرنسبتی کی بیٹی تھی، کو تحریری طلاق بھجوادی۔