تھا کہ آج بھی مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے انصاف پسند لوگ بھی ان باتوں کا برملا اعتراف کرتے ہیں بلکہ ان پر عمل کرکے اپنی زندگی میں خوشیاں بھی بکھیرتے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی جن کا دعویٰ ہے کہ نعوذباﷲ وہ عین محمدﷺ ہیں۔ ان کا اپنے اہل خانہ، عزیز واقارب کے ساتھ کیا تعلقات تھے اور ان کے سیرت نگار ہمیں کیا بتاتے ہیں؟ مرزاقادیانی نے اپنی پہلی بیوی جوکہ ان کی ماموں زاد بھی تھیں، کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ مرزاقادیانی کی گھسیٹی بیگم (والدہ مرزا) کی بھانجی، حرمت بی بی کے ساتھ پندرہ برس کی عمر میں شادی ہوئی۔ پتہ نہیں ایسی کونسی مجبوری پیش آگئی کہ اتنی کم عمری میں ہی شادی کردی گئی؟ یہ اعتراض کرنے کی بات نہیں بلکہ رحم کھانے کی بات ہے کہ دونوں خاندان پتہ نہیں کس مجبوری کا شکار ہوئے اور اتنے چھوٹے بچوں کو رشتہ ازدواج میں باندھنا پڑا۔
ایک سال کے بعد مرزا سلطان پیدا ہوا۔ اس وقت مرزاقادیانی کی عمر سولہ برس کے قریب تھی۔ بے چارے مرزاقادیانی، اتنی کم عمری میں ایک اور ذمہ داری پڑ گئی جو بے چارے میاں بیوی نبھانے سے قاصر تھے۔ آخر بچے کے بے اولاد تایا تائی نے آگے بڑھ کر ذمہ داری سنبھال لی۔
اس کے تقریباً چار سال بعد دوسرا بیٹا مرزا فضل احمد پیدا ہوا جس کو خاندان میں ’’پھجا‘‘ کہتے تھے اور اسی مناسبت سے حرمت بی بی ’’پھجے دی ماں‘‘ کے نام سے پکاری جانے لگیں اور مرتے دم تک بلکہ مرنے کے بعد بھی اسی نام سے پکاری جارہی ہیں۔ اس کے لئے ان کو مرزا بشیر احمد ایم اے کا شکرگزار ہی ہونا پڑے گا کہ انہوں نے اس کو تحریر میں ڈھال دیا۔
مرزاقادیانی کے سیرت نگار بتاتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے کم از کم پچیس سال تک کوئی کام نہیں کیا۔ کتابوں اور مسجد کی آڑ میں چھپ کر بیٹھے رہے۔ اس کے بعد اپنے ابا کی سالانہ پنشن لے کر چند دنوں میں ادھر ادھر اڑا دی اور پھر بیوی بچوں کو ماں باپ کے سر پر چھوڑ کر سیالکوٹ بھاگ گئے۔
مرزاقادیانی کے صحابی سید سرور شاہ کا بیان ہے کہ مرزاقادیانی نے ان کو بتایا کہ ’’فضل احمد‘‘ کی پیدائش کے بعد ہمارا اپنے گھر سے کوئی (ازدواجی) تعلق نہیں۔
مرزاقادیانی کے دوسری بیوی سے تیسرے مگر زندہ دوسرے (منجھلے) بیٹے مرزا بشیر احمد، ایم اے اپنی سگی والدہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں: ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ