لباس کے باب میں سب سے آخر میں بیٹے نے لکھا: ’’ایک بات کا ذکر کرنا بھول گیا وہ یہ کہ آپ امیروں کی طرح ہر روز کپڑے بدلا نہ کرتے تھے بلکہ جب ان کی صفائی میں فرق آنے لگتا تھا۔‘‘ (سیرت المہدی، ج۲ص۴۲۰، روایت نمبر۴۴۷) الفاظ کے ہیر پھیر کے باوجود تحریر بتارہی ہے کہ کم ازکم کئی کئی دن کپڑے نہیں بدلتے تھے۔
بیٹے نے سیرت نگاری کرتے ہوئے مزید لکھا ہے: ’’بارہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں لگے ہوئے ہوتے تھے بلکہ صدری کے بٹن کوٹ کے کاجوں میں لگائے ہوئے دیکھے گئے۔‘‘ (سیرت المہدی، ص۴۱۷، روایت نمبر۴۴۷) یہی مرزا قادیانی نے اسلام کے ساتھ کیا ہے کہ اسلام کے کوٹ میں یہودی صدری کے بٹن ٹانک دیئے ہیں۔
’’جرابیں پہنتے تھے تو اس کے پائوں کی ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپر ہوجاتی تھی۔‘‘ (سیرت المہدی، ج۲ ص۳۴۴، روایت نمبر۳۷۸) یہی اسلامی عقائد کے ساتھ کیا ہے کہ ہر چیز اوپر نیچے کرکے اس کو مضحکہ خیز بنادیا ہے۔
’’بعض اوقات کوئی دوست حضور کے لئے گرگابی ہدیتہً لاتا تو آپ بسا اوقات دایاں پائوں بائیں میں ڈال لیتے۔‘‘ (سیرت المہدی، ج۲ ص۳۴۴، روایت نمبر۳۷۸) ’’موسم گرما میں دن کو بھی اور رات کو تو اکثر اپنے کپڑے اُتار دیتے اور صرف چادر یا لنگی باندھ لیتے۔
’’گرمی دانے بعض دفعہ بہت نکل آتے تو اس کی خاطر بھی کرتہ اُتار دیتے۔ تہ بند اکثر نصف ساق تک ہوتا تھا اور گھٹنوں سے اوپر ایسی حالت میں مجھے یاد نہیں کہ آپ برہنہ ہوئے ہوں۔‘‘ (سیرت المہدی، ج۲ ص۴۱۹، روایت نمبر۴۴۷) ذرا شرفاء غور کریں کہ پوری پوری رات جو ان لڑکیوں سے مختلف خدمات کرواتے تھے، ٹانگیں دبواتے تھے۔ اس حالت میں کہ تہ بند (دھوتی) وہ بھی گھٹنوں سے اوپر باندھ کر۔ چھپے ہوئے نانگے پیر تھے مرزا قادیانی دراصل۔ کوئی حیا کا بھی تقاضا ہوتا ہے یا نہیں؟
اخلاق
اسلام میں اخلاق عبادت کا ہی ایک حصہ ہے۔ مرزاقادیانی کے اپنے اخلاقی ہتھیاروں کی مار سے کوئی نہیں بچ سکا، حتیٰ کہ انبیاء کرام بھی نہیں۔ یہاں صرف اشارۃً ایک دو نمونے کہ مزید کی گنجائش نہیں۔
یہ تعلیٰ کہ: ’’خدا وہ ہے کہ جس نے اپنے رسول کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔‘‘ (اربعین۳، ص۳۶، خزائن ج۱۷ص۴۲۶)