کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں، وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں۔‘‘ (اربعین ص۴، خزائن ج۱۷ص۴۷۱)
اس پر مستزاد، مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ: ’’مجھے اسہال کی بیماری ہے اور ہر روز کئی کئی دست آتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات، ج۲ص۳۷۶)
دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’کبھی کبھی خارش کا عارضہ بھی ہوجاتا ہے اور اکثر دست آتے رہنا، یہ بیماری تقریباً بیس برس سے ہے۔‘‘ (نسیم دعوت، ص۶۹،۷۰، خزائن ج۱۹ص۴۳۴، ۴۳۵)
ایک واقعہ مرزاقادیانی کی سیرت کی ایک کتاب میں لکھا ہے۔ اس واقعہ سے اندازہ ہو جائے گا کہ عوام تک کیسی کیسی کہانیاں پہنچتی تھیں اور وہ ان کے معیار صفائی، طہارت اور پاکیزگی کو کن الفاظ میں بیان کرتے تھے۔ مصنف نے بھی وہ الفاظ بعینہ استعمال کئے۔ بعد کے اڈیشن میں سے ’’جسم کے ایک حصہ کے ننگے نام کو جوکہ ’’دوڑا‘‘ کے وزن پر ہے لکھنے کی بجائے جگہ خالی چھوڑ دی ہے۔ اکثر جلوت اور خلوت میں رہنے والے مصنف لکھتے ہیں: ’’اس شخص نے کہا کہ کیا ہم یہودی ہیں۔ میں نے کہا کہ تم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو کہ تمہارے قول اور فعل کس سے ملتے جلتے ہیں۔ اس بات پر وہ شخص سخت غضبناک ہوکر کہنے لگا، دیکھو جی مرزا رات کو لگائی سے بدکاری کرتا ہے اور صبح کو بے غسل۔۔۔۔ بھرا ہوا ہوتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ مجھے یہ الہام ہوا، وہ الہام ہوا۔ میں مہدی ہوں، میں مسیح ہوں۔‘‘ (تذکرۃ المہدی، ص۱۵۷، مصلقہ پیر سراج الحق نعمانی) اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا۔ کہتی خلق خدا تجھ کو غائبانہ وحاضرانہ کیا کیا؟
لباس
ایک دفعہ شیخ رحمت اﷲ صاحب سے کسی نے اخراجات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود… کی خدمت میں عرض کیا کہ: ’’انہیں چاہیے روزانہ ایک دھویا ہوا کرتہ پاجامہ بدل لیا کریں۔ اس سے زیادہ اپنے اخراجات کو نہ بڑھائیں۔ حضرت صاحب نے اس پر فرمایا کہ ہم تو ہفتہ میں ایک بار کپڑے بدلتے ہیں۔‘‘ (ذکر حبیب، ج اول ص۳۱،۳۲، مصنفہ مفتی محمد صادق)
کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ: ’’کوٹ، صدری، ٹوپی، عمامہ رات کو اُتار کر تکیہ کے نیچے رکھ لیتے اور رات بھر تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو الگ جگہ کھونٹی پر ٹانگ دیتے ہیں وہ بستر پر سر اور جسم کے نیچے چلے جاتے اور صبح کو ان کی ایسی حالت ہوجاتی کہ اگر کوئی فیشن کا دلدادہ یا سلوٹ کا دشمن ان کو دیکھ لیتا تو سر پیٹ لیتا۔‘‘
(سیرت المہدی، ج۲ ص۴۱۹، روایت نمبر۴۴۷)