آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہوگئے۔‘‘
(سیرت المہدی، ج۱ص۳۸، روایت نمبر۴۹، مصنفہ مرزا بشیر احمد ایم اے)
مرزاقادیانی کی عمر اس وقت اندازاً ۲۵برس کی تھی۔ دو بچوں کے باپ تھے۔ اس زمانے کے مطابق پڑھے لکھے تھے۔ بقول مرزاقادیانی کے ان کو پھسلانے والا ان کا سگا چچازاد بھائی تھا جن کے ساتھ گھر کی دیواریں بھی ملی ہوئی تھیں اور جس کی خصلتوں کو مرزا جی یقیناً بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ اس لئے پھسلانے والی بات دل کو نہیں لگتی بلکہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی حرکت پر پردہ ڈالنے کے لئے یا جواز دینے کے لئے اس کا نام لیا جارہا ہے۔
دوسری بات ہے کہ مرزاقادیانی کے خاندانی حالات سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ چچازاد بھائی ’’ادھر ادھر کی جگہوں کا ماہر تھا۔ اس لئے غالباً ان کو رہنمائی کے لئے ساتھ لیا گیا ہوگا۔ یہ علیحدہ بات کہ اتنی جلدی پیسہ اُڑ جائے گا، اس کا مرزاقادیانی کو اندازہ نہ ہو۔
مرزا نے باپ کی امانت میں خیانت کی اور ادھر ادھر ناجائز امور میں ۷۰۰روپے کی رقم چند دن میں اُڑا دی۔ اس زمانہ میں سونا ۵یا ۶روپے تولہ (اندازاً ۱۰گرام) ہوتا تھا۔ آج کے دور میں یہ رقم کم وبیش تیس سے چالیس لاکھ روپے کے درمیان بنتی ہے۔ ہم یہ یقین کرنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ رقم ناجائز امور میں خرچ ہوئی، کیونکہ بقول مرزاقادیانی کے بیس برس کی عمر سے ہی ان کا اپنے گھر (بیوی) سے تعلق ختم ہوگیا تھا اور ایسے موقعوں پر جوانی یقیناً دیوانی ہوسکتی ہے اور چند دن میں اتنی رقم خرچ کرنے کے بعد شرم سے واپس گھر کیسے آسکتے تھے؟ اور ویسے بھی گھر سے جوتے مار کر نکال دیتے۔ لیکن مرزاقادیانی کو اپنی بیوی اور معصوم بچوں کا بھی خیال نہیں آیا۔ حالانکہ کہتے ہیں کہ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے۔ یہ تو اپنے بچوں کے بھی سگے نہیں نکلے۔ (بلکہ سگ نکلے)
مرزاقادیانی کا کہنا ہے کہ ماں کی کوکھ سے ہی نبی پیدا ہوا۔ اگر واقعی یہ سچ ہوتا تو اﷲ تعالیٰ نے جن کو بھی نبی بنایا ان کو شروع سے ہی ہر ایسی بات سے محفوظ رکھا اور پاک رکھا لیکن مرزاقادیانی کی زندگی کا صرف ایک یہی واقعہ نہیں اور بھی بے شمار واقعات ہیں جہاں ہمیں مرزاقادیانی بجائے اﷲ کی حفاظت میں شیطان کے ہاتھوں کھیلتے نظر آتے ہیں۔
صفائی
اب مرزاقادیانی کی اپنی بیان کردہ حقیقت بھی پڑھئے: ’’اور بسا اوقات سوسو دفعہ رات