میرے خیال میں ان مریدوں نے چندہ یا بھتہ نہیں دیا ہوگا اس لئے غصہ میں سب کا جنازہ پڑھ دیا لیکن ہمیں روایات سے یہ بھی ملتا ہے کہ حکیم نورالدین نے مرزاقادیانی کو پیچھے کرکے اپنے بچے کا جنازہ خود پڑھایا۔
مسجدوں سے کراہت
اعتراف مرزا قادیانی کہ وہ مسجدوں سے کراہت کرتے ہیں، لکھتے ہیں کہ: ’’یہ سچ ہے اور بالکل سچ ہے کہ میں ہمیشہ اپنے سفر کے دنوں میں مسجدوں میں حاضر ہونے سے کراہت ہی کرتا ہوں۔‘‘ (فتح اسلام ص۴۱، خزائن ج۳ ص۲۵، حاشیہ)
ایک عام مسلمان بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں سفر کے دوران مسجدوں میں نہیں جاتا، وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن کوئی مسلمان مسجد جوکہ خدا کا گھر ہے اس کے لئے کبھی بھی کراہت کا لفظ استعمال نہیں کرے گا۔ مسجد سے کراہت کا اظہار صرف ایک ایسا شخص ہی کرسکتا ہے جس کے دل میں اﷲ تعالیٰ، رسول کریمﷺ، اسلام اور مسلمانوں کے لئے بغض اور دشمنی بھری ہو۔
دیانت
مرزاقادیانی کی بھی تقریباً یہی عمر تھی، مگر شادی شدہ تھے اور دو بچوں کے باپ تھے، اس کا مطلب ہے کہ برے بھلے کی تمیز تھی۔ مرزاقادیانی کے والد نے ان کو انگریزوں کے سرکاری خزانے سے اپنی سالانہ پنشن لینے کے لئے بھیجا جوکہ سات سو روپے تھی اور یہ پنشن ان کے خاندان کا کئی ماہ کا خرچ تھا اور خاندان میں مرزاقادیانی کے والدین، ان کے بھائی اور ان کے بیوی بچے، مرزاقادیانی کے اپنے بیوی بچے، اس کے علاوہ غالباً کچھ اور لوگ بھی متعلقین میں شامل تھے۔ مرزاقادیانی نے پنشن وصول کی اور چند دن میں ادھر ادھر اُڑا دی اور اس کے بعد شرمندگی کی وجہ سے گھر میں نہیں آئے اور سیالکوٹ جاکر ملازمت کرلی۔
ان کے بیٹے نے جو روایت لکھی ہے وہ اس طرح ہے۔ ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کرلی تو وہ آپ کو پھسلاکر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا، پھر جب سارا روپیہ اس نے اُڑا کر ختم کردیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے گھر واپس نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشا رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لئے