صرف اس ایک فقرہ کا تجزیہ کرنے بیٹھیں تو بات بہت دور نکل جائے گی۔ بات اس وقت یہیں محدود رکھی جاتی یہ کہ مرزاقادیانی کے دل میں احادیث مبارکہ کی جو قدر ہے ان کی احادیث کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے بھی اعترافات موجود ہیں۔ یہ سب تحریریں ہمیں واضح پیغام دے رہی ہیں کہ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھُلا۔
اعتکاف
’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے حج نہیں کیا، اعتکاف نہیں کیا، زکوٰۃ نہیں دی، تسبیح نہیں رکھی، میرے سامنے ضب یعنی گوہ کا گوشت کھانے سے انکار کیا، خاکسار عرض کرتا ہے کہ … اعتکاف ماموریت کے زمانہ سے قبل غالباً بیٹھے ہوں گے مگر ماموریت کے بعد بوجہ قلمی جہاد اور دیگر مصروفیت کے نہیں بیٹھ سکے۔ کیونکہ یہ نیکیاں اعتکاف سے مقدم ہیں۔‘‘ (سیرت المہدی، ج۳ ص۶۲۳، روایت نمبر۶۷۲، مصنفہ مرزا بشیر احمد ایم اے)
مرزاقادیانی کی خودساختہ ماموریت کے بعد کا اعتراف تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں مگر ان کے بیٹے نے ’’اعتکاف ماموریت سے قبل غالباً بیٹھے ہوں گے‘‘ لکھ کر باپ کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ مزراقادیانی کی سوانح یا تحریروں میں کہیں نہیں کہ وہ کبھی بھی اعتکاف بیٹھے ہیں۔ مجاہدے، ریاضتیں وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے اپنے اﷲ کو راضی کرنا ہوتا ہے، وہ لوگ کبھی بھی ایسی تکلیفوں، پابندیوں میں نہیں پڑتے، جن کا کوئی نامعلوم خدا ان کے کاغذوں پر دستخط کرے اور ساتھ ہی اتنا جاہل ہوکہ قلم چھڑک کر کپڑے بھی خراب کردے۔ ویسے بھی یہی بیٹے اس کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ: ’’مرزاقادیانی دین میں ہمیشہ سہل راستہ پسند کرتے تھے‘‘ تو سہل راستوں والے بھی کبھی ایسی ریاضتیں کرتے ہیں؟ نیز اگر مرزاقادیانی کے اپنے بیانات، اعترافات کو دیکھیں تو زیادہ وقت ان کا ٹوائلٹی جہاد میں ہی گزرتا تھا، اب اعتکاف کے لئے کیاوقت نکالتے۔
جنازہ
’’قاضی سید امیر حسین صاحب کا چھوٹا بچہ فوت ہونے پر جنازے کے ساتھ حضرت مسیح موعود بھی تشریف لے گئے اور خود ہی جنازہ پڑھایا۔ عموماً جنازے کی نمازیں حضرت مسیح موعود اگر موجود ہوتے تو خود ہی امام کرتے، اس وقت نمازجنازہ میں شامل ہونے والے دس پندرہ آدمی ہی تھے۔ بعد سلام کسی نے عرض کی کہ حضور میرے لئے بھی دعا کریں۔ فرمایا، میں نے تو سب کا ہی جنازہ پڑھ دیا ہے۔‘‘ (ذکر حبیب، ص۱۶۱، ازمفتی محمد صادق قادیانی)