اب قادیان کو کچھ فضیلت بھی تو عطا کرنی ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنی کن فیکون والی طاقت استعمال کرتے ہوئے قادیان کو محترم بنادیا۔
اپنی ایک نظم میں لکھتے ہیں: ’’زمین قادیان اب محترم ہے۔ ہجوم خلق سے ارض حرم ہے۔‘‘ (درثمین، ص۲۵، مرزا قادیانی)
حدیث رسولﷺ
’’کیا آنحضرتﷺ کی ان لوگوں کو وصیت تھی کہ میرے بعد بخاری کو ماننا؟ بلکہ آنحضرتﷺ کی وصیت تو یہ تھی کہ کتاب اﷲ کافی ہے۔ ہم قرآن کے بارے میں پوچھے جائیں گے نہ کہ زید اور بکر کے جمع کردہ سرمایہ کے بارے میں۔ یہ سوال ہم سے نہ ہوگا کہ تم صحاح سِتہ وغیرہ پر ایمان کیوں نہ لائے۔ پوچھا تو یہ جائے گا کہ قرآن پر ایمان کیوں نہ لائے۔‘‘
(ملفوظات، ج۴ ص۱۵۱)
یہ بات کرکے سب سے پہلے نمبر پر تو مرزاقادیانی اپنے ہی اس قول کے مصداق بنتے ہیں: ’’کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو، جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیت کو۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۷، خزائن ج۱۷ ص۷۸)
دوسرے نمبر پر رسول کریمﷺ کو کیسے پتہ ہوسکتا تھا کہ ان کے بعد امام بخاریؓ، امام مسلمؓ اور دوسرے امامؒ ان حدیث کو اکٹھے کریں گے۔ اس سوال کا جواب کہ احادیث رسولﷺ پر ایمان لانا ضروری ہے یا نہیں؟ خود قرآن کریم دے رہا ہے۔
‘‘کہئے اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میرے پیچھے چلو، اﷲ تم سے محبت کرے گا۔‘‘ (ال عمران) اس آیت میں رسول کریمﷺ کے پیچھے چلنے کا کیا مطلب ہے، کیا کوئی انسان بقائمی ہوش وحواس کہہ سکتا ہے کہ پیچھے چلنے کا مطلب صرف قرآنی آیات ہیں؟ اور کیا ان کے اقوال اور عمل بھی شامل ہیں یا نہیں؟
پھر اس قرآنی آیت کا کیا جواب دیں گے: ’’ اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اس واسطے کہ اس کے حکم پر چلا جائے اﷲ کے فرمان سے۔‘‘ (نسائ)
’’لیکن قرآن شریف ایسے احتمالات سے پاک ہے۔ آنحضرتﷺ کی زندگی قرآن شریف تک ہی ہے۔ پھر آپ فوت ہوگئے۔ اگریہ احادیث صحیح ہوتیں اور مدار اِن پر ہوتا تو آنحضرتﷺ فرما جاتے کہ میں نے حدیث جمع نہیں کیں۔ فلاں فلاں آوے گا تو جمع کرے گا تم ان کو ماننا۔‘‘ (ملفوظات ج۴ ص۱۵۱)