قادیانی مذہب کا دوسرا بڑا فرقہ ’’احمدیہ انجمن اشاعت اسلام‘‘ المعروف ’’لاہوری جماعت‘‘ کیا لکھتی ہے۔ ممکن ہے ’’ربوی فرقہ‘‘ کہے کہ یہ لاہوریوں کے خیالات ہیں تو وہ غلط ہیں، وہ ’’ربوی گروہ‘‘ کے خیالات بیان کررہے ہیں۔ ذاتی اور طویل تجربہ بھی ہے کہ ربوی گروہ کے یہی خیالات ہیں۔ مضمون نگار لکھتے ہیں: ’’ابوبکرؓ وعمرؓ کیا تھے وہ تو حضرت غلام احمد (مرزا قادیانی، ناقل) کی جوتیوں کے تسمہ کھولنے کے بھی لائق نہ تھے‘‘
(ماہنامہ المہدی، بابت جنوری، فروری، ۱۹۱۵ئ، نمبر۲،۳، ص۵۷، احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور)
ویسے لاہوری گروپ بھی مرزا کی ہر بات کی تائید کرتا ہے اور مذہبی دُکانداری چلانے کے لئے سوائے ایک دو مصنوعی اختلافات کے دونوں میں کوئی فرق نہیں اور ایک ہی سکہ کے دو رُخ ہیں۔
محسن اُمت بلکہ انسانیت، جنہوں نے رسول اﷲﷺ کی سب سے زیادہ احادیث جمع کرکے اور بیان کرکے رہتی دنیا تک مسلمان اُمت پر احسان کیا، ان کے بارے میں مرزا قادیانی کس طرح اپنے قلم کی جولانیاں دکھارہے ہیں، لکھتے ہیں: ’’ابوہریرہؓ غبی تھا، درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔‘‘ (اعجاز احمدی، ص۱۸، خزائن ج۱۹ ص۱۲۷) ان کے علاوہ بھی ایسے حوالے بے شمار ہیں لیکن یہاں تو بطور نمونہ ہم چند باتیں بیان کررہے ہیں۔
قادیانی حضرات اگر باضمیر ہوکر سوچیں تو ان کو سوال کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ خودبخود جواب ان کے سامنے ہے کہ جس پاک ہستی سے ۱۳۰۰سال میں سب سے زیادہ اپنے آپ کو محبت اور عشق میں خود کو فنا قرار دے رہے ہو اس کے ہر لمحہ قریب رہنے اور قربانیاں دینے والے اصحاب کے لئے کس زبان، کس لہجہ اور کس قلم سے یہ لکھ رہے ہو۔ کیا عاشق رسولﷺ کا یہ طریق کار کہیں کسی مومن کا بھی کسی نے دیکھا ہے، کجابزرگان دین کا؟
میرے خیال میں حضرت ابوہریرہؓ سے جو احادیث مروی ہیں ان احادیث مبارکہ کے مقابل پر مرزاقادیانی کے دعویٰ جات رکھے جائیں تو مرزا قادیانی کے دعوے اس طرح پگھل کر گندی رو میں بہہ جائیںگے جیسے کہ کیچوے پر نمک ڈالو تو وہ سیکنڈوں میں گھل کر بدبودار پانی کی طرح رہ جاتا ہے۔ اس وجہ سے مرزا قادیانی حضرت ابوہریرہؓ سے بھی دل میں دشمنی محسوس کرتے تھے۔ فاعتبرو یااولی الابصار
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی عزت مرزاقادیانی نے مکہ معظمہ کے مقابل قادیان میں حج کرنا زیادہ ثواب کی نیکی قرار دے دیا۔ قرآن (پتہ نہیں کونسا لیکن مسلمانوں کا قرآن مجید نہیں) بھی قادیان میں نازل کردیا۔