ب… (باب۳۰، آیت۱۰) میں ہے: ’’اور لیاہ کی لونڈی زلفہ کے بھی یعقوب سے ایک بیٹا ہوا۔‘‘
ج… (استثناء باب۲۳، آیت۱۵) میں ہے: ’’اگر کسی کا غلام اپنے آقا کے پاس سے بھاگ کر تیرے پاس پناہ لے تو تو اسے اس کے آقا کے حوالہ نہ کر دینا۔‘‘
اس کے علاوہ قبل از اسلام مشرکین مکہ میں بھی غلامی کا رواج تھا۔ بلکہ یہود ونصاریٰ سے لے کر کفار ومشرکین مکہ تک سب ہی لوگ غلاموں اور لونڈیوں کو کسی انسانی سلوک کا مستحق نہیں سمجھتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ لوگ ایک آزاد انسان کو پکڑ کر زبردستی غلام بنا کر بیچ دیتے تھے۔ جب کہ اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ نے اس کی شدید مذمت فرمائی اور قرآن کریم نے مسلمانوں کو غلاموں کے ساتھ اسی طرح کے حسن سلوک اور نیک برتاؤ کی تلقین اور تاکید فرمائی۔ جس طرح کے وہ اپنے والدین کے ساتھ سلوک کے روادار تھے۔ ملاحظہ ہو ارشاد الٰہی: ’’واعبدوا اﷲ ولا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احساناً وبذی القربیٰ والیتمٰی والمسکین والجار ذی القربیٰ والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم ان اﷲ لا یحب من کان مختالاً فخورا (النسائ:۳۶)‘‘ {اور بندگی کرو اﷲ کی اور شریک نہ کرو اس کا کسی کو، اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور قرابت والوں کے ساتھ اور یتیموں اور فقیروں اور ہمسایہ قریب اور ہمسایہ اجنبی اور پاس بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ اور اپنے ہاتھ کے مال یعنی غلام باندیوں کے ساتھ، بے شک اﷲ کو پسند نہیں آتا اترانے والا بڑائی کرنے والا۔}
دیکھا جائے تو اس آیت شریفہ میں دو قسم کے احکام ایک ہی جگہ اور ایک ہی سیاق وسباق میں بیان کئے گئے ہیں۔ ایک اﷲتعالیٰ کی عبادت اور دوسرے اس کی مخلوق سے حسن سلوک اور نیکی کا برتاؤ کرنا۔ پھر دوسرے حصے میں بطور خاص کچھ ایسے لوگوں کو مخصوص کر کے بیان کیاگیا ہے۔ جن کے ساتھ انسان نیکی میں بے اعتنائی برتتا ہے۔ تاکہ ان کی طرف زیادہ توجہ ہو۔ گویا ان دونوں احکام کو ایک ہی جگہ بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ جیسے اﷲتعالیٰ کی عبادت کرنا، اس کا شریک نہ ٹھہرانا اسلام لانے کے لئے ضروری ہے۔ ویسے ہی اس کی مخلوق کے ساتھ نیکی کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ شریعت کے یہی دواہم اجزاء ہیں۔ ایک اﷲتعالیٰ سے سچا تعلق اس کی اطاعت عبادت اور دوسرے اس کی مخلوق کے ساتھ نیکی کا معاملہ۔
پس جہاں بائبل میں غلاموں کے ساتھ حسن سلوک سے متعلق ایک حرف بھی نہیں