دہرے گناہوں سے بچیں۔
قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ اﷲ تعالیٰ نے کیا ہے کہ تا قیامت میں اس کی حفاظت اور وحی آخر کا ذمہ دار ہوں اور تا قیامت وحی رسالت میں نہ تو ایک شوشہ کمی ہوگی اور نہ ہی زیادتی ہوگی۔ اب اگر اﷲ تعالیٰ وحی کرتا ہے تو خود اپنا وعدہ توڑتا ہے کہ آخری وحی کے بعد دوبارہ وحی کی۔ چاہے وہ دوبارہ قرآن کریم کو ہی نازل کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ تیرہ سو سال تک حفاظت کی اب نئے طور پر نازل کرنے کے لئے حفاظت کا وعدہ ختم کردیا۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ لیکن مرزاقادیانی کہہ رہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اپنے وعدے پورے نہیں کرتا۔ حالانکہ جب ہم مرزاقادیانی کی پیشین گوئیاں یا ٹامک ٹوئیوں کا انجام دیکھتے ہیں تو ہر پیشین گوئی میں واضح نظر آتا ہے کہ ان کے (نامعلوم) خدا نے کبھی بھی مرزاقادیانی کے ساتھ وعدہ وفا نہیں کیا اور مرزاقادیانی کو تاویلات کے جوہڑ میں کاغذی نائو چلانی پڑی! شاید اسی کے اثر سے مرزاقادیانی بھی وعدہ وفا نہیں کرتے تھے۔ اور اس فقرہ پر غور کریں ’’میں ازروئے یقین ان سب سے کم نہیں ہوں۔‘‘ دعویٰ نبوت ناقصہ کا، دعویٰ ظل (سایہ) ہونے کا، دعویٰ غیرمستقل نبوت کا، دعویٰ مثیل کا، اس کے باوجود یہاں، سب کچھ بھول کر، واضح طور پر قسم کھا کر ناصرف دوسرے انبیاء کرام بلکہ نبیوں کے سردار، شافع دوجہاں، خاتم المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ کی برابری کا دعویٰ کیا جارہا ہے اور مرزاقادیانی کی وحی والہامات کی کتاب کا نام تذکرہ ہے اور یہ نام بھی حقیقتاً قرآن کریم کا ہی ہے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس ذکر (قرآن مجید) کو ہم نے نازل کیا ہے اور اس کی مناسبت سے اس کا نام تذکرہ رکھا ہے۔
تسبیح
مرزاقادیانی کو کبھی استغفار پڑھتے نہ دیکھا گیا نہ سنا گیا۔ اس قسم کی روایتیں ہیں کہ استغفار نہیں پڑھا لیکن پڑھنے کی کوئی روایت نہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ: ’’میں نے جب یہ روایت مولوی شیرعلی صاحب سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے بھی دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود سبحان اﷲ بہت پڑھتے ہیں اور مولوی صاحب کہتے تھے کہ میں نے آپ کو استغفار پڑھتے کبھی نہیں سنا تھا، نیز خاکسار اپنا مشاہدہ عرض کرتا ہے کہ میں نے بھی حضرت مسیح موعود کو سبحان اﷲ پڑھتے سنا ہے۔‘‘ (سیرت المہدی، ج۱ ص۳، روایت نمبر۱)