لوگوں کو علم نہیں؟ بہرحال یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے ہر ایک بات کا علم ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔ جو بھی کرو خدا سے ڈر کر کرو۔
اس سوال کا جواب بھی مرزاقادیانی کا الہام دے دیتا ہے کہ مرزاقادیانی پر قرآن کہاں نازل ہوا؟ الہام ہے: ’’انا انزلناہ قریباً من القادیان‘‘ اس کی تفسیر یہ ہے کہ انا انزلنا قریباً من دمشق بطرف شرقی عندالمنارۃ البیضاء کیونکہ اس عاجز کی سکونتی جگہ قادیان کے شرقی کنارہ پر ہے۔‘‘
(تذکرہ ص۷۴، ۷۵، تیسرا ایڈیشن، ناشر، الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ)
دجل کی انتہا دیکھیں، جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ سب سے پہلے مرزاقادیانی ایک جگہ کسی قسم کے سفید منارہ کا انکار کرچکے ہیں (تفصیل کے لئے اس فقیردرمصطفیﷺ کا مضمون ’’چھوڑ دو تم اس۔۔۔ کو دیکھیں) اور اس حدیث کو غریب اور موضوع قرار دے چکے ہیں۔ یہ علیحدہ بات کہ زندگی کے آخری سالوں میں مینار بنوانے کا خیال آیا تو چندے کے لئے اسی حدیث کو بنیاد بنایا! یہاں جب سفید مینارہ بھی، دمشق کیا قادیان میں بھی موجود نہیں تھا تو وہ کونسا سفید مینار ہے جس کا مرزاقادیانی کی وحی میں ذکر ہے۔ قرآن کریم کے مرزاقادیانی پر نزول کے وقت؟ کہ مرزاقادیانی کا خدا اتنا بے خبر ہے یا دیکھ نہیں سکتا کہ مینارہ موجود ہی نہیں لیکن وہ مینارہ کے شرقی طرف کا کہہ رہا ہے؟ کوئی بتائے گا کہ یہ مینارہ کونسا تھا، کہاں اور کس چیز کا بنا ہوا تھا؟ جو صرف مرزاقادیانی اور ان کے خدا کے علاوہ باقی جن وانسان کسی کو بھی نظر نہیں آرہا تھا۔
اور قرآن دنیا سے اُٹھانے کے سوال کا جواب بھی مرزاقادیانی نے دے دیا ہے کہ ۱۸۵۷ء میں قرآن دنیا سے اُٹھالیا گیا۔ اس کی تائید مرزاقادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد، ایم اے جس کا الہامی خطاب قمرالانبیاء ہے۔ اپنی کتاب میں کرتا ہے، لکھتا ہے کہ: ’’ہم کہتے ہیں کہ قرآن کہاں موجود ہے؟ اگر قرآن موجود ہوتا تو کسی کے آنے کی کیا ضرورت تھی۔ مشکل تو یہی ہے کہ قرآن دنیا سے اُٹھ گیا ہے۔ اس لئے تو ضرورت پیش آئی کہ محمدﷺ (مراد مرزا قادیانی ہے۔ ناقل) کو بروزی طور پر دوبارہ دنیا میں مبعوث کرکے آپ پر قرآن شریف اُتارا جائے۔‘‘
(کلمتہ الفصل، ص۱۷۳)
مرزاقادیانی اپنی پہلی کتاب میں قرآن کریم کی حفاظت کے وعدے کے متعلق لکھتے ہیں: ’’اﷲ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ ہم نے ہی اس کتاب کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں… لاکھوں مسلمان اس کے محافظ ہیں اور ہزارہا اس کی تفسیریں ہیں۔ پانچ وقت اس کی آیات نمازوں