سے دے دیا جائے۔ ایسے حالات میں حرج نہیں ہے۔‘‘
(سیرت المہدی، حصہ سوم ص۷۱۸، روایت۷۷۳)
’’قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۶ء کی بات ہے کہ ایک سائل نے جو اپنے آپ کو نوشہرہ ضلع پشاور کا بتاتا تھا اور مہمان خانہ قادیان میں مقیم تھا حضرت صاحب کو خط لکھا کہ میری مدد کی جائے۔ مجھ پر قرضہ ہے۔ آپ نے جواب لکھا کہ قرض کے واسطے ہم دعا کریں گے اور آپ بہت استغفار کریں (خود کبھی نہیں کیا۔ ناقل) اور اس وقت ہمارے پاس ایک روپیہ ہے جو ارسال ہے۔‘‘ (سیرت المہدی، حصہ سوم ص۷۳۵، روایت ۸۰۷) یہ ہے قادیانی مہدی کا مال کا لٹانا! کہو قادیانی دوستو! ایسے مہدی کا ہی انتظار تھا تمہیں؟
اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک عرب جگہ جگہ سے گھومتا ہوا آیا اور اس نے مرزاقادیانی سے کچھ مدد مانگی۔ مرزاقادیانی نے اس کو کچھ رقم دی۔ بعض اصحاب نے کہا کہ حضور آپ نے تو اس کو اتنی رقم دے دی۔ تو مرزاقادیانی نے کہا کہ یہ جگہ جگہ گھومنے پھرنے والا ہے۔ ہر جگہ ہماری سخاوت کا ذکر کرے گا، ہمارا نام پہنچائے گا۔ مسلمان کسی نام کرنے والے مہدی کا نہیں بلکہ کام کرنے والے مہدی کا انتظار کررہے ہیں!
حج
پہلے چار ارکان اسلام پر مرزاقادیانی کے عملدرآمد کی بابت مختصراً روئداد آچکی ہے۔ اب پانچویں رُکن اسلام کے ساتھ مرزاقادیانی کا اپنا عمل اور دوسروں کو کیا ہدایات ہیں۔
’’ مولوی محمد حسین بٹالوی کا خط حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی خدمت میں سنایا گیا جس میں اس نے اعتراض کیا تھا کہ آپ حج کیوں نہیں کرتے؟ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ میرا پہلا کام خنزیروں کا قتل ہے اور صلیب کی شکست ہے۔ ابھی تو میں خنزیروں کو قتل کررہا ہوں، بہت سے خنزیر مرچکے ہیں اور بہت سخت جان ابھی باقی ہیں، ان سے فرصت اور فراغت ہولے۔‘‘ (ملفوظات، ج۳ص۳۷۲) رسول اکرمﷺ کی احادیث مبارکہ کے مطابق حضرت مسیح ابن مریم کہاں احرام باندھیں گے اور حج کریں لیکن یہ مسیح صاحب ابھی سوروں کے باڑے میں ہی گھوم رہے ہیں اور ان سوروں کی ملکہ کو عالیہ قرار دے کر اس کی متابعت کا اعلان کررہے ہیں۔ ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ حج نہ کرنے کی تو خاص وجوہات تھیں کہ شروع میں تو آپ کے لئے مالی لحاظ سے انتظام نہ تھا۔ کیونکہ ساری جائیداد وغیرہ اوائل میں ہمارے دادا صاحب کے