یہ بھی ایک سوال ہے، جہیز میں تو اتنا ملا ہو ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ وہ محکمہ انہار کے ملازم، ایک کثیرالعیال نقشہ نویس کی بیٹی تھیں اور مرزاقادیانی کے بقول خود ان کے اپنے مالی حالات ایک کم تر درجے کے زمیندار کی طرح ہوگئے تھے اور براہین احمدیہ اور اس کے بعد دوسری کتابیں چھاپنے کے لئے چندے کی اپیلیں کرتے رہتے تھے۔ دوسری طرف جس کی برابری کا نعوذ باﷲ دعویٰ ہے اس محسن انسانیت کا یہ حال تھا کہ شام تک گھر میں اگلے دن کے لئے کچھ جمع نہیں رہنے دیتے تھے۔
صدقہ خیرات
اسلام میں صدقہ خیرات کی اہمیت بہت بیان کی گئی ہے لیکن جو صاحب ساری عمر دوسروں سے اشاعت اسلام کے نام پر، عطیات، زکوٰہ، صدقہ، خیرات، مردہ کنچنیوں کا مال، سود، مردوں کے قبروں سے نکالے ہوئے کفنوں کی قیمت، عورتوں کے زیورات اپنے لئے اکھٹے کرتے ہوں۔ دعائوں کے لئے پیسے وصول کریں اور کھل کر کہیں کہ اگر دعا کرانی ہے تو ایک لاکھ دو مریدوں کو باقاعدہ زبانی اور تحریری طور پر مجبور کریں کہ وہ ماہواری یا باقاعدگی سے ان کو چندہ دیں۔ جس نے وصیت کے نام سے اپنے مریدوں کی جائد ادومال ہتھیانے کا طریقہ اختیار کرکے نسلوں کی روٹی کا بندوسبت کرگیا، اس شخص سے کیا توقع ہوسکتی ہے کہ اس نے کوئی صدقہ وخیرات کیا ہوگا۔
مرزاقادیانی نے اگر کبھی کسی کو کچھ دیا تو اس نیت کے ساتھ کہ دور دور تک ان کا نام جائے گا۔ اس کے علاوہ مرزاقادیانی کسی رفاہی کام کے لئے بھی ایک روپیہ خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ صرف لینا جانتے تھے دینا نہیں۔ علی گڑھ کالج کے لئے مرزاقادیانی سے چندہ مانگا گیا، انہوں نے انکار کردیا۔ حتیٰ کہ مرزاقادیانی سے کہا گیا کہ علامتی طور پر ایک روپیہ ہی چندہ دے دیں مگر انہوں نے اس سے بھی انکار کردیا۔ حالانکہ اسی کالج میں ان کا پوتا مرزا عزیز پسر مرزا سلطان احمد جس کو مرزاقادیانی نے دیوث اور دشمن اسلام قرار دے کر عاق کیا تھا، بھی اس کالج میں پڑھ رہا تھا۔
رسول کریمﷺ نے سادات کے لئے صدقہ وزکوٰہ کو حرام قرار دیا ہے لیکن مرزاقادیانی نے جائز قرار دے دیا۔ بیٹے کی لکھی روایت ہمیں بتاتی ہے کہ: ’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت … (مرزاقادیانی۔ناقل) فرمایا کرتے تھے کہ اگرچہ صدقہ اور زکوٰۃ سادات کے لئے منع ہے۔ مگر اس زمانہ میں جب ان کے گزارہ کا کوئی انتظام نہیں ہے تو اس حالت میں اگر کوئی سید بھوکا مرتا ہے اور کوئی اور صورت انتظام کی نہ ہو تو بے شک اسے زکوٰۃ یا صدقہ میں