زکوٰۃ
مرزاقادیانی اپنے نام کے ساتھ رئیس قادیان بھی لکھا کرتے تھے۔ اب اگر تو رئیس لکھنے کے بعد بھی صاحب نصاب نہیں تو دونوں میں سے ایک جھوٹ ہے اور اگر غریب تھے اس قابل نہیں تھے تو اپنے آپ کو رئیس ظاہر کیا، دنیا کو دھوکا دینے کے لئے، تو کیا اﷲ تعالیٰ نے دنیا کو دھوکہ بازی سکھانے کے لئے مہدی بھیجنا تھا یا دھوکہ دہی ترک کرنے کے لئے؟ جس پہلو سے بھی دیکھیں، مرزاقادیانی مسیح، مہدی وغیرہ تو دور کی بات شریف آدمی بھی نظر نہیں آتے۔ اسلام کا بنیادی رُکن مرزاقادیانی کس طرح پس پشت ڈال رہے ہیں۔ پانچ بنیادی ارکان میں سے تین کے ساتھ جو حشر کیا ہے وہ تو سامنے آگیا، زکوٰۃ کی طرف سے مرزاقادیانی نے اپنی آنکھیں ہمیشہ بند رکھیں۔
بیٹے کی گواہی کیا کہتی ہے؟ ’’اور زکوٰۃ اس لئے نہیں دی کہ آپ کبھی صاحب نصاب نہیں ہوئے۔‘‘ (سیرت المہدی، حصہ سوم ص۶۲۴، روایت۶۷۲)
اسی بیٹے کی اسی کتاب سیرت المہدی کی دوسری جلد کی گواہی کیا کہتی ہے؟ گھر سے چار ہزار کا زیور اور ایک ہزار نقد۔۔۔ مرزاقادیانی کے بیٹے لکھتے ہیں کہ: ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ رہن نامہ جس کی رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا باغ حضرت والدہ صاحبہ کے پاس رہن رکھا تھا، میں نے دیکھا ہے وہ باقاعدہ رجسٹری شدہ ہے اور اس کی تاریخ ۲۵؍جون ۱۸۹۸ء ہے، زر رہن پانچ ہزار روپے ہے جس میں سے ایک ہزار نقد درج ہے اور باقی بصورت زیورات ہے۔ اس رہن میں حضرت صاحب سے مندرجہ ذیل الفاظ درج ہیں۔ ’’اقرار یہ ہے کہ عرصہ تیس سال تک فک الرہن مرہونہ نہیں کراؤں گا، بعد تیس سال مذکور کے ایک سال میں جب چاہوں زر رہن دوں تب فک الرہن کرالوں ورنہ بعد انفصال میعاد بالا یعنی اکتیس سال کے بتیسویں سال میں مرہونہ بالا ان ہی روپوں میں بیع بالوفا ہو جائے گا اور مجھے دعویٰ ملکیت نہیں رہے گا۔ قبضہ اس کا آج سے کرادیا ہے اور داخل خارج کرا دوں گا اور منافع مرہونہ بالا کی قائمی رہن تک مرتہنہ مستحق ہے اور معاملہ سرکاری فصل خریف ۱۹۵۵ء بکرمی سے مرتہنہ دے گی اور پیداوار لے گی۔‘‘
(سیرت المہدی، حصہ دوم ص۳۳۸، روایت۳۲۸)
اس رہن نامہ کے ایک ایک الفاظ پر غور کریں اور سردھنیں کہ یہ ایک خودساختہ پیغمبر کی بیوی کا اپنے خاوند سے کیا رویہ ہے؟
لیکن آپ ذرا بھی غور کریں کہ ایک خودساختہ پیغمبر کے گھر میں چھ کلو سونا بھی پڑا ہوا ہے اس پر بھی زکوٰہ واجب نہیں! اور کہاں سے آیا؟