قادیانی بچوں نے اپنے والدین سے سوال بھی کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ پانچ نمازیں ہوتی ہیں۔ لیکن جب بھی کوئی اکٹھ ہوتا ہے وہاں یہ تین رہ جاتی ہیں اور گھروں میں بے کار، بے بنیاد عذر تراش کر قادیانی نمازیں جمع کرکے پتہ نہیں کس کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسے بے شمار واقعات ہمیں مرزاقادیانی کی زندگی سے مل سکتے ہیں۔ نماز کے ساتھ ایسے سلوک کو مدنظر رکھتے ہوئے جب مسلمان حضرات اپنے تحفظ اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں تو کیا وہ غلط کرتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ بہت سارے سمجھ دار قادیانی جب اس مضمون کو پڑھیں گے تو یقینا ان کا ضمیر بھی ان کو سوچنے اور سمجھنے کی طرف راغب کرے گا۔ انشاء اﷲ تعالیٰ۔ اﷲ تعالیٰ بہت سوں کے لئے اس مضمون کو ہدایت کی طرف سوچ اور فیصلہ کا ذریعہ بنائے۔ آمین!
روزہ
پہلے دو ارکان اسلام (کلمہ شہادت ونماز) کے ساتھ جو سلوک مرزاقادیانی نے کیا وہ تو آپ نے پڑھ لیا۔ اب روزوں کے ساتھ مرزاقادیانی کیا سلوک کرتے ہیں، اس کا بھی کچھ مختصر حال پڑھ لیں۔ اس مضمون میں کوئی تنقید نہیں صرف ایسے واقعات کو پیش کرنا ہے جن سے مرزاقادیانی کا ارکان اسلام وعبادات اسلام سے برگشتہ ہونا، ان میں تحریف یا ان کی ادائیگی سے ان کی اہمیت وضرورت کو ختم کرنا ظاہر ہو اور قادیانی دوستوں کو ان کے سوال کا جواب مل سکے۔
مرزاقادیانی کے بیٹے کی زبانی، اہلیہ کی گواہی، لکھتے ہیں: ’’ بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔ دوسرا رمضان آیا تو آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہوا، اس لئے چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیا تو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیا تو آپ کا تیرھواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔ مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے، خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتداً دوروں کے زمانہ میں روزے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضا کیا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں! صرف فدیہ ادا کردیا تھا، خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود کو دوران سر اور برد اطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانے میں آپ بہت کمزور ہوگئے تھے اور صحت خراب رہتی تھی۔‘‘ (سیرت المہدی، حصہ اول