اور اس نظم پر مرزا قادیانی نے ناصرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ وہ قطعہ گھر کے اندر لے گئے اور وہاں اپنے کمرے میں اس کو لٹکایا (اپنے صحابی کو نہیں بلکہ اس کی پیش کردہ نظم کو) کاش کوئی غیرت مند اس وقت مرزاقادیانی اور ان کے اس صحابی قاضی ظہورالدین اکمل کو الٹا لٹکا دیتا تو ممکن ہے کہ لاکھوں لوگوں کے ایمان تباہ ہونے سے بچ جاتے اور یہ بات مرزاقادیانی کہ موت سے تقریباً پونے دو سال قبل کی ہے، اس کا مطلب ہے کہ رسول پاکﷺ کی شان میں گستاخی اپنی جماعت کے ذہنوں میں بہت اچھی طرح سے بٹھاچکے تھے۔ قاضی ظہورالدین اکمل کی بھتیجی اور کئی قریبی رشتہ دار مسلمان ہوچکے ہیں۔ فالحمدﷲ! غالباً اسی شاعر کے کچھ اور شعر
محمد پئے چارہ سازی اُمت ہے اب احمد مجتبیٰ بن کے آیا
حقیقت کھلی بعث ثانی کی ہم پر کہ جب مصطفی میرز ابن کے آیا
آسماں اور زمیں تونے بنائے ہیں نئے
تیرے کشفوں پہ ہے ایمان رسول قدنی
پہلی بعث میں محمد ہے تو اب احمد ہے
تجھ پہ اُترا ہے قرآن رسول قدنی
(الفضل قادیان ج۱۰ نمبر۳۰ ص۱،۲، مورخہ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۲۲ئ)
مرزا بشیرالدین محمود پسر مرزاقادیانی اور خلیفہ دوئم کہتا ہے کہ ہر شخص رسول کریم سے بھی بڑھ سکتا ہے: ’’یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کرسکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا ہے حتیٰ کہ محمدﷺ سے بھی بڑھ سکتا ہے۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان، نمبر۳ ج۱۰، مورخہ ۱۷؍جولائی۱۹۲۲ئ) حالات، واقعات اور دوسرے آثارات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غالباً مرزا بشیرالدین محمود خود آگے بڑھنے کے لئے میدان تیار کررہے تھے لیکن ایک تو پاکستان بن گیا اور قادیان سے جس کو یہ دارالامان بھی کہتے ہیں، چھپ کر نکلے اور پاکستان پہنچ کر ربوہ آباد کیا۔ ایک ہی وقت میں اسرائیل اور عجمی اسرائیل قائم ہوئے۔ ربوہ میں بہ جلد فالج اور دوسری بیماریوں نے جکڑلیا۔ غالباً اسی وجہ سے نعوذباﷲ! محمد رسول اللہﷺ سے آگے بڑھنے کا پروگرام رہ گیا۔
اسی لئے (دماغی مراق کے زیراثر) مرزا قادیانی اپنے خیال میں ہر ایک سے زیادہ روحانی طور پر بلند ہوگئے۔ ’’ان قدمی ھذہ علی منارۃ ختم علیھا کل رفعۃ‘‘ ترجمہ: میرا یہ قدم اس منارہ پر جہاں تمام روحانی بلندیاں ختم ہیں۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۳۵، خزائن ج ۱۶ ص۷۰)