، عبادات کا حلیہ بگاڑ دینا، سب مل کر مرزاقادیانی کے بخشے ہوئے ایک ایسے اندھیرے بلیک ہول کی حیثیت اختیار کرگئی ہے کہ نور کی اس میں کوئی کرن نہیں اور جہاں اگر کوئی اچھا کام ہو بھی جائے تو مرزا قادیانی کا بخشا ہوا اندھیرا نگل لیتا ہے۔
اور ان کا بیٹا مرزا بشیر احمد ایم اے نے اپنے والد کے دعاوی کو تقویت دیتے ہوئے نعوذبااﷲ اپنے خیال میں رسول کریمﷺ کا وجود بھی ختم کردیا اور اس کو اپنے ابا کا وجود قرار دے دیا۔ لکھتا ہے: ’’چونکہ مشابہت تامہ کی وجہ سے مسیح موعود اور نبی کریم میں کوئی دوئی باقی نہیں رہی۔ حتیٰ کہ ان دونوں کے وجود بھی ایک وجود کا ہی حکم رکھتے ہیں۔‘‘ (کلمتہ الفصل، ص۱۰۴، مصنفہ مرزا بشیر احمد، ایم اے) اس کا مطلب ہے کہ اگر ایک ہی وجود ہوا تو مرزا قادیانی نے انکار نبوت کرتے ہوئے لوگوں کے اعتراضات پر کفر کے فتوے اور جتنی لعنتیں ڈالی ہیں ان کا مورد کون ہوا؟ استغفراﷲ!
مرزا قادیانی اپنے قلم اور منہ سے تو آنحضورﷺ کو خاتم الانبیاء کہتے ہیں اپنے آپ کو ان کا خادم قرار دیتے ہیں لیکن جب ہم حقیقتاً ان کی تحریروں کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ خود اور ان کی اولاد اور ان کے علماء دراصل مرزاقادیانی کو ناصرف خاتم الانبیاء اور ان کے وجود بابرکت کے طور پر پیش کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر مرزاقادیانی کو آنحضورﷺ سے بڑھ کر قرار دیتے ہیں۔ نعوذباﷲ۔ اس پر بے شمار حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ موضوع اس مضمون میں زیادہ تفصیل سے نہیں دیا جاسکتا یہاں عبادات اور ارکان اسلام کے بارہ میں مرزاقادیانی کا عمل اور سوچ اور تحریر کو اتنے ہی اختصار کے ساتھ دکھایا جارہا ہے جس سے صرف قاری کو ان وجوہات کا کسی حد تک اندازہ ہوسکے کہ مسلمانوں کا رویہ مرزاقادیانی اور ان کی جماعت کے لئے کھنچا ہوا اور فاصلے پر رہنے والا کیوں ہے؟دعویٰ برتری
اس فقیر نے جو نقطہ نظر پیش کیا ہے کہ مرزاقادیانی اپنی نظر میں اوراپنی اولاد اور جماعت کے باعلم طبقہ میں آنحضورﷺ سے برتر تھے یا نہیں، یہ حوالہ دیکھئے ان کے ایک صحابی کا،
محمد پھر اُتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں
(اخبار بدر قادیان نمبر۴۳ ج۲ص۱۴، مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ئ)