واذیتوں پر صبروبرداشت کا حکم تھا تو اب جوابی، بلکہ اقدامی کارروائی کا حکم کیونکر دیا جارہا ہے؟ تو فرمایا گیا کہ یہ صبروبرداشت ایک وقت تک تھی۔ اب اس کا حکم ختم ہوگیا ہے اور جہاد وقتال کا حکم اس لئے دیا جارہا ہے کہ اب تمہارے صبر کا امتحان ہوچکا اور کفار کے مظالم کی انتہاء ہوچکی۔
نیز یہ کہ چونکہ اس وقت کفار، مشرکین اور ان کے مظالم، اشاعت اسلام میں رکاوٹ تھے اور وہ فتنہ پردازی میں مصروف تھے۔ اس لئے حکم ہوا کہ: ’’وقاتلوہم حتیٰ لا تکون فتنۃ‘‘ یعنی کفار سے یہاں تک قتال کرو کہ کفر کا فتنہ نابود ہو جائے۔
اسی طرح اس مضمون کو دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا گیا:
الف… ’’یٰایہا النبی جاہد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم وماوٰہم جہنم وبئس المصیر (التوبہ:۷۳)‘‘ {اے نبی! لڑائی کر کافروں سے اور منافقوں سے اور تندخوئی کر ان پر اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔}
ب… ’’قل ان کان اٰباؤکم وابناؤکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموالن اقترفتموہا وتجارۃ تخشون کسادھا ومسٰکن ترضونہا احب الیکم من اﷲ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتیٰ یأتی اﷲ بامرہ واﷲ لا یہدی القوم الفٰسقین (التوبہ:۲۴)‘‘ {تو کہہ دے اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری، جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اورحویلیاں جن کو پسند کرتے ہو تم کو زیادہ پیاری ہیں اﷲ سے اور اس کے رسول سے اور لڑنے سے اس کی راہ میں تو انتظار کرو۔ یہاں تک کہ بھیجے اﷲ اپنا حکم اور اﷲ رستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو۔}
ان آیات سے بھی واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہاد کا حکم اﷲتعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا ہے۔ بلکہ اس میں شدت کی تاکید ہے اور جو لوگ اپنی محبوبات ومرغوبات کو چھوڑ کر جہاد کا حکم بجانہیں لائیں گے۔ وہ اﷲ کے عذاب کا انتظار کریں۔ بتلایا جائے کہ اگر اﷲ کا رسولﷺ، صحابہ کرامؓ یا مسلمان اس حکم الٰہی کو بجالائیں اور نصوص قطعیہ کی وجہ سے اسے فرض جانیں تو اس میں اﷲ کے نبی، صحابہ کرامؓ اور مسلمانوں کا کیا قصور ہے؟ نیز یہ بھی بتلایا جائے کہ جو لوگ طبعی خواہش اور نفس کے تقاضے کے خلاف سب مرغوبات ومحبوبات کو چھوڑ کر اﷲ کا حکم بجالائیں۔ وہ قابل طعن ہیں یا وہ جو دنیاوی مفادات اور انگریزوں کی خوشنودی کی خاطر اﷲ کے حکم کو پس پشت ڈال دیں؟
بلاشبہ قادیانیوں کا یہ اعتراض ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کے زمرے اور مصداق میں آتا ہے۔