۳… اس سے بڑھ کر یہ کہ اﷲتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو قرآن کریم میں جس طرح مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کرنے اور اس طرف متوجہ کرنے کے لئے فرمایا ہے۔ اس سے صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لئے قلت تعداد کے باعث ثقیل تھا اور ان کے لئے جہاد کا حکم بجالانا کسی قدر مشکل تھا۔ چنانچہ مندرجہ ذیل آیات میں مسلمانوں کو جہاد کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا گیا۔
الف… ’’اذن للذین یقاتلون بأنہم ظلموا وان اﷲ علیٰ نصرہم لقدیر (الحج:۳۹)‘‘ {حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں۔ اس واسطے کہ ان پر ظلم ہوا اور اﷲ ان کی مدد کرنے پر قادر رہے۔}
ب… ’’یٰایہا النبی حرّض المؤمنین علی القتال ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مائتین وان یکن منکم مائۃ یغلبوا الفاً من الذین کفروا بانہم قوم لا یفقہون (الانفال:۶۵)‘‘ {اے نبی! شوق دلا مسلمانوں کو لڑائی کا، اگر ہوں تم میں بیس شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں دو سو پر، اور اگر ہوں تم میں سے سو شخص تو غالب ہوں ہزار کافروں پر اس واسطے کہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔}
ج… ’’کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم وعسیٰ ان تکرہوا شیئًا وہو خیرلکم وعسیٰ ان تحبوا شیئاً وھو شرلکم واﷲ یعلم وانتم لا تعلمون (البقرہ:۲۱۶)‘‘ {فرض ہوئی تم پر لڑائی اور وہ بری لگتی ہے تم کو اور شاید کہ تم کو بری لگے ایک چیز اور وہ بہتر ہو تمہارے حق میں اور شاید تم کو بھلی لگے ایک چیز اور وہ بری ہو تمہارے حق میں اور اﷲ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔}
ان آیات اور اسی طرح کی دوسری متعدد آیات سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہاد کا حکم آنحضرتﷺ کی جانب سے نہیں۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کی طرف سے تھا۔ چونکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد تھوڑی اور وہ ایک عرصہ سے کفار کے مظالم کی چکی میں پس رہے تھے اور مسلمان بظاہر کفار کی تعداد اور قوت وحشمت سے کسی قدر خائف بھی تھے۔ اس لئے اﷲتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو حکم دیا کہ ان کو جہاد پر آمادہ کیا جائے اور باور کرایا جائے کہ وہ کفار کی عددی کثرت سے خائف نہ ہوں بلکہ مسلمانوں کا ایک فرد کفار کے دس پر بھاری ہوگا۔
۴… اسی طرح یہ بھی واضح کیاگیا کہ مسلمانوں کو یہ احساس بھی نہیں رہنا چاہئے کہ اب تک تو ہمیں کفار کے مظالم پر صبر کی تلقین کی جاتی رہی اور ان کی جانب سے دی جانے والی تکالیف