رکھنے والے کو بھی وہ کافر سمجھیں گے کہ نہیں؟ اور ان تحریروں کے بعد وہ خود بھی کیا سوچ رہے ہیں؟
مرزاقادیانی کا ایک کشف بیان کرنے سے پہلے، جس میں وہ خدا بنتے ہیں اور زمین آسمان نیا بناتے ہیں، ان کا ایک حوالہ پیش کیا جاتا ہے۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’میں ایسے شخص کا سخت دشمن ہوں کہ جو کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوکر پھر یہ خیال کرتا ہے کہ میں خدا ہوں۔ گو میں مسیح کو اس تہمت سے پاک قرار دیتا ہوں کہ اس نے کبھی خدائی کا دعویٰ کیا (یہاں اپنے ہی، حضرت مسیح علیہ السلام پر لگائے ہوئے الزام کا انکار ہے۔ ناقل) تاہم میں دعویٰ کرنے والے کو تمام گناہ گاروں سے بدتر سمجھتا ہوں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۶۱۵)بات ذہن میں رہے ’’جوکسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوکر پھر یہ خیال کرتا ہے۔‘‘ اس کے باوجود مرزاقادیانی اپنا یقینی کشف بیان کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ دعویٰ ہے کہ وہ پیغمبر ہیں اور پیغمبر کا خواب اور کشف حقیقت،وحی ہوتا ہے۔
میرے اس الزام یا خیال کی تصدیق مندرجہ ذیل حوالہ کرتا ہے جس میں مرزا جی نئے زمین وآسمان بناتے ہیں۔ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا (خیال بھی نہیں بلکہ یقین کیا۔ ناقل) کہ وہی ہوں اور میرا اپنا کوئی ارادہ اور کوئی خیال اور کوئی عمل نہیںرہا اور میں ایک سوراخ دار برتن کی طرح ہوگیا ہوں یا اس شے کی طرح جسے کسی دوسری شے نے اپنی بغل میں دبالیا… (پورا ڈیڑھ صفحہ ہے اور آخر میں کیا فرماتے ہیں۔ ناقل) اور اس حالت میں، میں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ سو میں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب اور تفریق نہ تھی پھر میں نے منشاء حق کے موافق اس کی ترتیب وتفریق کی اور میں دیکھتا تھا کہ میں اس کے خلق پر قادر ہوں۔ پھر میں نے آسمان دنیا کو پیدا کیا اور کہا ’’ان زینا السماء الدنیا بمصابیح۔ پھر میں نے کہا اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے۔‘‘ (کتاب البریہ ص ۸۵تا ۸۷، خزائن ج ۱۳ ص۱۰۳ تا ۱۰۵) ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ یہ کشف ہے تو مرزا قادیانی فرماتے ہیں کہ پیغمبر کا خواب کشف وحی ہوتا ہے اور وحی تو ہر کوئی جانتا ہے کہ خدا کا کلام ہوتا ہے جو صرف حقیقت اور سچ ہوتاہے۔ ہم صرف مرزاقادیانی کی منطق کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان کے افکار اور اقوال کے جائزے کے نتیجہ میں یہی سامنے آتا ہے جو پیش کیا جارہا ہے۔
مرزا قادیانی پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کو اپنی کتاب میں مخاطب کرکے مذہبی سوالوں کے جواب کا ایک معیار پیش کرتے ہیں، لکھتے ہیں کہ: ’’سچ کی یہی نشانی ہے کہ اس کی کوئی نظیر بھی ہوتی ہے اور جھوٹ کی یہ نشانی ہے کہ اس کی کوئی نظیر نہیں ہوتی۔ بھلا بتائو مثلاً دو فریق میں ایک امر متنازعہ