باقی کچھ نہ بچے گا قادیانی جماعت کی قیادت قادیانی افراد کو اسلام سے بہت دور لے کر جا چکی ہے۔ ایک قادیانی فرد کے دل میں مکہ، مدینہ کا احترام نہیں ہوگا جتنا احترام چناب نگر (ربوہ) قادیان یا لندن کا ہوگا۔ ایک قادیانی بچے سے دوسرے خلیفہ کا نام پوچھیں تو وہ حضرت عمرؓ کی بجائے مرزا بشیر الدین کا نام بتائے گا۔ زکوٰۃ سے قادیانی کوسوں دور جاچکے ہیں۔ حج سے جماعت تو پہلے ہی منہ موڑ چکی ہے۔
۱۹۷۴ء میں قادیانیوں پر حج کے حوالے سے پابندی لگی۔ ۱۹۷۴ء میں مرزا طاہر احمد صاحب جماعت کی طرف ترتیب دئیے گئے اس گروپ میں شامل تھے جو قومی اسمبلی میں جماعت کی ترجمانی کے لیے پیش ہوتا رہا ہے گویا مرزا طاہر احمد صاحب اس وقت خاص حیثیت کے مالک تھے۔ کیا مرزا طاہر احمد اس وقت تک ۵/۱۰ حج کر چکے تھے یا ۱۰/۲۰ عمرے کر چکے تھے؟ جواب نفی میں ہوگا؟ پھر کیونکر پوری جماعت نے ان کو مذہبی لحاظ سے سب سے افضل پایا کہ ان کو اپنا خلیفہ چن لیا۔ مرزا طاہر احمد نے بھی حج اس لیے نہیں کیے اور جماعت نے بھی اسی لیے اس بات کو اہمیت نہیں دی کہ ان کے نزدیک حج کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس ’’فضول حرکت‘‘ (نعوذ باللہ) پر وہ کیوں پیسہ برباد کریں؟احباب جماعت! یہ بھی تو دیکھیں کہ مرزا قادیانی نے خود ایک فیصلہ کن معرکہ میں لڑ کر شکست کھائی ہے اور اس بارے میں خود فیصلہ دیا ہے کہ جو جھوٹا ہوگا شکست کھائے گا۔ ہوا یوں کہ ڈاکٹر عبد الحکیم آف پٹیالہ قادیانی تھے۔ ۲۰ سال قادیانی رہنے کے بعد وہ علیحدہ ہوگئے اور مرزا قادیانی کو چیلنج کر دیا اور ان کو جھوٹا قرار دیا اور پیشگوئی کی کہ ۴ اگست ۱۹۰۸ء تک ہلاک ہو جائیں گے یعنی مرزا قادیانی کیونکہ جھوٹے ہیں اس لیے ۴ اگست ۱۹۰۸ء تک ہلاک ہو جائیں گے مرزا قادیانی نے چیلنج قبول کیا اور مقابل میں اس پیشگوئی کو اس پر الٹتے ہوئے کہا کہ جو جھوٹا ہوگا وہ ۴ اگست ۱۹۰۸ء تک ہلاک ہو جائے گا اور اب یہ مقدمہ خدا کی عدالت میں ہے۔ اور خدا صادق کا ساتھ دے گا پھر یوں ہوا کہ مرزا قادیانی نے چیلنج قبول کرکے انہی کتاب چشمہ معرفت میں یہ اعلان شائع کر دیا۔ (دیکھو چشمہ معرفت ص ۳۲۲، خزائن ج۲۳ ص۳۳۷)
’’خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس اعلان کے شائع ہونے یعنی کتاب کے شائع ہونے کے صرف ۱۱ دن بعد مرزا صاحب ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء یعنی مقررہ تاریخ سے دو ماہ قبل معیاد کے اندر پیشگوئی کے مطابق فوت ہوگئے۔ کیا فرماتے ہیں علماء قادیانیت بیچ اس مسئلہ کے‘‘؟