ہیں۔ خصوصاً قادیانی خاندانوں کے تعلیم یافتہ افراد نئی روشنی سے فائدہ اٹھا کر روشنی کی طرف سفر کرتے ہوئے اسلام کی پاکیزہ تعلیم کو قبول کرلیتے ہیں۔اگر آپ یہ سمجھیں کہ باہر کی دنیا میں خاصے لوگ قادیانی ہو رہے ہیں اور تعداد لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں تک پہنچ گئی ہے۔ جیسا کہ نام نہاد ’’عالمگیر بیعت‘‘ سے دھوکا لگ رہا ہے۔
پہلی بات! کہ آج سے ۵۰ سال قبل کے قادیانی خاندان قادیانیت کو بہتر طور پر سمجھ چکے ہیں اس لیے جماعت کو آہستہ آہستہ چھوڑ رہے ہیں جبکہ باہر کے ’’بھولے لوگ‘‘ اصل بات کو جانتے نہیں لہٰذا دھوکے سے جماعت کے شکنجے میں آ رہے ہیں۔
دوسری بات! یہ کہ آپ ذرا غور فرمائیں کہ ۲۰۰۰ء میں اعلان ہوا کہ ۴ کروڑ افراد نے بیعت کی ہے جبکہ پچھلے سال کا ’’سکور‘‘ ایک کروڑ تھا۔ اس طرح گویا صرف دو سالوں میں پانچ کروڑ افراد نئے قادیانی ہو چکے ہیں۔ اب جماعت تو کسی شخص کو (قادیانی کو) چندے کے حوالے سے بخش نہیں سکتی۔ کیونکہ یہ چندے تو مرزا قادیانی نے لاگو کیے تھے اسی لیے انہیں ’’لازمی چندہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس طرح اگر فی کس ایک ڈالر فی مہینہ تصور کرلیں (یورپ، امریکہ میں ڈالر پاکستانی روپے کے برابر حیثیت رکھتا ہے۔ ایک روپیہ فی کس کسی طرح بھی جماعت برداشت نہیں کرسکتی، لازماً زیادہ چندہ وصول کرے گی) تو ۱۲ ڈالر فی کس سالانہ بنتا ہے جبکہ پانچ کروڑ افراد (نو احمدی) کا سالانہ چندہ ۶۰ کروڑ ڈالر بنتا ہے جو کہ پاکستانی روپیہ کے مطابق ۳۶ ارب روپے بنتا ہے۔ کیا جماعت نے ۳۶ ارب روپے کے بجٹ کا اعلان کیا ہے؟
یہ چندہ تو صرف دو سال میں نئے شامل ہونے والے قادیانیوں کی طرف سے بنتا ہے جبکہ گزشتہ ۱۰ سالوں میں نئے شامل ہونے والے افراد اور پہلے سے موجود قادیانی افراد کا چندہ اس کے علاوہ ہے۔
اگر ۳۶ ارب روپیہ کے برابر جماعت کے پاس چندہ آ رہا ہے تو پھر پاکستانی قادیانیوں سے چندہ وصول کرنا نہ صرف زیادتی ہے بلکہ انتہاء درجہ کا ظلم ہے۔ جو ایک صدی سے غربت کے باوجود بڑے اخلاص سے چندہ دیتے آ رہے ہیں۔ اب جبکہ جماعت کے پاس اربوں روپیہ آ رہا ہے تو جماعت کو ان غریبوں کو ریلیف دینا چاہیے۔
احباب جماعت! قادیانی جماعت اب ایک (نام نہاد) مذہبی تحریک سے نکل کر ایک تجارتی یا مالیاتی نیٹ ورک کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اگر پیسے کی کولیکشن باہر نکال دیں تو