بیٹے تھے بلکہ جماعت کے دوسرے خلیفہ بھی، نے واضح طور پر عام مسلمانوں کو غیر مسلم اور کافر قرار دیا۔ جبکہ مرزا بشیر احمد ایم۔ اے نے جو نہ صرف مرزا صاحب کے بیٹے تھے۔ بلکہ جماعت انہیں ’’قمر الانبیائ‘‘ کا خطاب دیتی ہے۔ نے ’’کافر بلکہ پکا کافر‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرکے انتہا کردی۔
(مزید تفصیل کے لیے کلمۃ الفصل ص ۱۱۰۔۱۴۳، ۱۴۶،۱۴۷ از مرزا بشیر احمد)
احباب جماعت! یہ بھی تو دیکھیں کہ مرزا قادیانی نے کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں۔ کتابیں شائع کرنے کے لیے اور چندہ کی روایت ڈالی اور پھر منظم طریق سے دینی اغراض کے لیے چندہ اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں جب پاکستان بننے پر مرزاقادیانی کی فیملی پاکستان میں داخل ہوئی تو ہر فرد کے حصے میں کلیم کے کئی کئی مربعے زمین آئی اور بہت سی زمین خریدی گئی بلکہ سندھ میں تو بہت سے گائوں (سٹیٹس، احمد آباد، محمود آباد، طاہر آباد، ناصر آباد، بشیر آباد وغیرہ) آباد کر دئیے گئے۔ پھر مرزاقادیانی کی فیملی کے تمام افراد کی رہائش، آسائش اور بودوباش کو دیکھو تو آپ کی ضرور آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ بغیر کسی کاروبار کے، بغیر کسی سروس کے، اتنا شاہانہ اخراجات، اتنی جائیداد اور دولت کہاں سے آ رہی ہے؟
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہر قادیانی (خواہ وہ غریب ہو) نے اپنی آمدنی کا تقریباً ۱۰ فیصد ہر ماہ ادا کرنا ہے کیا یہ ٹیکس ہے؟ جی ہاں یہ ٹیکس ہے کیونکہ اس کا دینا لازمی ہے۔ اگر آپ نہیں دیتے تو آپ قادیانی نہیں رہ سکتے۔ آپ ووٹ نہیں دے سکتے۔ آپ عہدیدار نہیں بن سکتے۔ اگر چندہ دیتے ہیں تو پھر مذہبی اور اخلاقی حالت کیسی ہی کیوں نہ ہو آپ ’’مخلص قادیانی‘‘ تصور ہوں گے۔
احباب جماعت! یہ بھی تو دیکھیں کہ پاکستان میں آپ کے ارد گرد موجود قادیانی جماعتوں کی کیا حالت ہے؟ پچھلے ۳۰ سالوں میں کتنے نئے لوگ جماعت میں داخل ہوئے اور کتنے احمدی جماعت چھوڑ گئے؟ آپ یقینا دیکھیں گے کہ آنے والوں کی نسبت جانے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ دل کو آپ یہ سوچ کر تسلی دیں گے کہ دوسرے شہروں میں آنے والوں کی تعداد بہتر ہوگی۔ مگر یہ صرف اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا۔ پورے پاکستان میں تمام جماعتیں روز بروز تنزلی کا شکار ہیں اور آپ یہ یقین کرلیں کہ آج سے ۵۰ سال پہلے جتنے خاندان قادیانی تھے وہ آہستہ آہستہ جماعت سے علیحدہ ہو رہے ہیں، نہ کہ نئے خاندان جماعت میں آ رہے