میں سروس کے دوران چند عیسائی لوگوں سے بحث کے نتیجہ میں مذہبی مناظروں کی طرف رخ کیا۔ اس وقت عیسائیوں کی حکومت کے نتیجہ میں مسلمانوں پر خاصا دبائو تھا۔ مسلمانوں نے مرزا قادیانی کی حوصلہ افزائی کی۔ مرزا قادیانی مزید تیز ہوگئے۔ اپنے محل وقوع میں عیسائیوں کے خلاف تقاریر و تحریر کا سلسلہ شروع کیا۔ مسلمانوں نے ان کی حوصلہ افزائی جاری رکھی۔ مزید آگے بڑھتے ہوئے مرزا قادیانی نے اعلان کیا کہ وہ اسلام کی حقانیت کو واضح کرنے کے لیے ۵۰ جلدوں پر مشتمل ’’براہین احمدیہ‘‘ نامی کتاب لکھیں گے اس کے لیے مسلمان حضرات کو ۵۰ جلدوں کی کل رقم ایڈوانس دینے پر قائل کیا۔ اسلام کی تبلیغ کا جوش رکھنے والے مخیر حضرات نے اس پر لبیک کہا اور ۵۰ جلدوں کی رقم اکٹھی کردی۔
مرزا قادیانی نے چار جلدیں لکھیں اور خوب اشتہار بازی بھی کی۔ اس سے مسلمانوں میں عزت سے دیکھے جانے لگے۔ واضح رہے کہ باوجود مسلمانوں کے اصرار کے صرف پانچ جلدیں لکھ کر اعلان کر دیا کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے کیونکہ ۵۰ اور ۵ میں صرف صفر کا فرق ہے۔ یہ مذاق میں بات نہ کی بلکہ اس دعوے کو شائع بھی کر دیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۷، خزائن ج۲۱ ص۹ از مرزا غلام احمد قادیانی) اب جو لوگ ان کی طرف مائل ہوچکے تھے ان کو کسی ’’نیٹ‘‘ میں لانے کی ضرورت تھی اور اپنی کوئی حیثیت بھی بنانے کی ضرورت تھی۔ لہٰذا اس پبلسٹی کو کیش کرواتے ہوئے چودہویں صدی کے مجدد کا دعویٰ کر دیا اور ایک حدیث تلاش کرلی کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد آئے گا اور پھر خود ہی کچھ صدیوں کے مجدد دریافت کر دئیے۔
اس دعوے سے کچھ لوگ ان کے مزید قریب ہوگئے اور چند لوگ پیچھے ہٹ گئے جبکہ خود پروپیگنڈہ سے ایک اعتراض شروع کرا دیا۔ کہ چودہویں صدی کا مجدد تو امام مہدی ہوگا۔ اسے مرزاقادیانی نے بھی خوب ایکسپلائیٹ کیا۔ جب اعتراض کو زیادہ شدت سے پھیلا دیا گیا کہ چودہویں صدی کا مجدد تو امام مہدی ہوگا۔ اس لیے آپ کیسے مجدد بن گئے؟ تو مرزاقادیانی نے ’’ڈیمانڈ‘‘ پوری کرتے ہوئے امام مہدی کا دعویٰ بھی کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی باقاعدہ جماعت بنانے کے لیے۔ لوگوں کو مزید اکٹھا کرنے اور پابند رکھنے کے لیے ۱۸۸۹ء میں بیعت لینے کا سلسلہ شروع کردیا۔