قادیانی جماعت کے ترجمان خالد مسعود کی ایک وضاحت روزنامہ ’’دن‘‘ لاہور کی ۲۶؍ جنوری ۱۹۹۹ء کی اشاعت میں شائع ہوئی ہے کہ ’’پروفیسر منور احمد ملک کو ۹؍ مارچ ۱۹۹۵ء کو جماعت سے خارج کر دیا گیا تھا۔‘‘ یعنی انگور کھٹے ہیں۔ ذرا غور فرمائیے ’’اپنے ہی دام میں آپ صیاد آگیا۔‘‘
جس دلیل کو جماعت ۲۵ سال سے ہر جگہ پیش کر رہی ہے کہ کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ کسی کو دین اسلام یا کسی مذہب سے خارج کرسکے۔ اب خود اس اختیار کو تسلیم کرلیا ہے۔ کہ دین/مذہب سے خارج کیا جاسکتا ہے۔ گویا اب قومی اسمبلی کے فیصلہ کو تسلیم بھی کرلیا ہے اور اس کے اس حق کو بھی۔
قادیانی جماعت سے نکلنے یا جماعت چھوڑنے کا رجحان تو عام ہے۔ پروفیسر منور کیا نکلا کہ جماعت اپنی چال ہی بھول گئی؟ گویا اب جماعت پروفیسر منور ملک کو نیچا دکھانے کے لیے اس اختیار کو بھی تسلیم کر رہی ہے کہ مذہب سے خارج کیا جاسکتا ہے اور اک ’’خلیفہ وقت‘‘ کے علاوہ چھوٹے عہدیدار بھی جسے چاہیں جماعت سے خارج کرکے اس کا ’’جنت‘‘ میں داخلے کا راستہ بند کرکے ’’دوزخ‘‘ کے لیے اس کی سیٹ بک کروا سکتے ہیں۔
اگر اس بیان سے مراد نظام جماعت سے اخراج تک ہی محدود ہے تو پھر اس کے شائع کرنے کا کیا ’’تک‘‘ ہے۔ راقم نے دیگر ۱۲ افراد کے ساتھ نظام جماعت سے نکلنے کا اعلان نہیں کیا۔ بلکہ قادیانیت کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہاں یہ ذکر کر دینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ۲۲؍ جون ۱۹۹۶ء کے اخبار روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ (چناب نگر) میں بڑے فخر سے یہ خبر دی گئی تھی کہ ’’مکرم منور احمد ملک ایک احمدی پروفیسر ہیں اور محمود آباد جہلم سے تعلق رکھتے ہیں۔ گوجر خان سرور شہید گورنمنٹ ڈگری کالج گوجر خاں کے پروفیسر منور احمد ملک نے ایک ایسی ٹائل ایجاد کی ہے جس سے شدید گرمیوں میں بھی سیمنٹ والی چھتوں (لینٹر) کو ٹھنڈا رکھا جاسکے گا۔
گویا ۱۹۹۵ء میں جماعت سے خارج کیا جبکہ ۱۹۹۶ء میں احمدی تسلیم کر رہے ہیں۔ امید ہے جماعت کے تنخواہ دار مولوی (مربی) یا گفتار کے غازی (بے عمل متقی) فوری جوش دکھاتے ہوئے اس گتھی کو سلجھانے کے لیے آگے آئیں گے تاکہ جماعت کے اندرونے کو بھی عوام الناس کو جھانکنے کا موقع مل سکے۔