خالصتاً بلیک میلنگ کا طریقہ ہے۔ اگر کسی فرد نے جماعت کے کسی ’’سرغنہ‘‘ (اس کے ہم معنی نرم الفاظ میرے پاس نہیں ہیں) کے مزاج کے خلاف بات کردی یا ایسی کوئی حرکت کردی جو اس کے ذاتی مفاد کے خلاف ہو تو اسے اخراج از نظام جماعت کی سزا ’’دلوائی‘‘ جاتی ہے پھر اس کے بارے میں تمام جماعتوں میں اعلان کروا کر اس کی کردار کشی کی جاتی ہے اور اس کی عزتِ نفس کو نظر انداز کرکے اسے خوب بدنام کیا جاتا ہے۔ اور پھر اس کے رشتہ داروں کو اس کے خلاف بھڑکا کر اس پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ ’’حضور‘‘ (امام جماعت) سے معافی مانگ لے۔ ’’حضور‘‘ کا تصور جماعت میں خدا سے خاصا افضل ہے۔ حضور ناراض ہوں گے تو خدا یقینا ناراض ہوگا۔ حضور راضی ہیں تو خدا یقینا راضی ہوگا۔ یعنی خدا اپنی مرضی نہیں کرسکتا۔ (نعوذ باللہ)
معتوب شخص پر اتنا دبائو پڑے گا کہ وہ چار و ناچار معافی نامہ لکھ دے گا۔ ایک دفعہ معافی نامہ لکھوانے کے بعد اسے قابو میں رکھ کر اسے کہا جائے گا کہ معافی نامہ دوبارہ لکھو اور اس طرح لکھو، اس میں یہ لکھو، اس میں وہ لکھو، مذکورہ ’’سرغنہ‘‘ سے معافی مانگو۔ اب ایک شخص جو پہلے ایک دفعہ معافی لکھ کر ’’داغ دار‘‘ ہو چکا ہے وہ مجبوراً دوبارہ لکھ دے گا۔ اب وہ شخص ساری زندگی جماعت میں ایک ’’معذور‘‘ شخص کے طور پر رہ سکے گا۔ اسے اپنا ضمیر مردہ رکھنا پڑے گا۔ ہر جائز و ناجائز بات کو ماننا پڑے گا۔ اور کسی غلط سے غلط حرکت پر بھی وہ اعتراض نہ کرسکے گا۔
یہ فارمولا ہر اس شخص پر لگایا جاتا ہے جو کسی کی کرسی یا ’’شان‘‘ کے لیے خطرہ ثابت ہو، یا جماعت میں زیادہ پاپولر ہو جائے، یا جماعت میں زیادہ سرگرم ہو۔ اس طرح کی پریکٹس جماعت میں عام ہے۔ بہت ہی کم ایسے قادیانی عالم، مربی یا مبلغ ہوں گے جو جماعت میں اپنی حیثیت بنانے کے بعد اس بلیک میلنگ کا شکار نہ ہوئے ہوں۔ کسی کا ’’مقاطعہ‘‘ کسی کی زبان بندی، کسی کا بائیکاٹ، کسی کو ’’اخراج از نظام جماعت‘‘ کی سزا، یہ بلیک میلنگ کے عام حربے ہیں۔
راقم الحروف کو جب درج بالا بلیک میلنگ کے حربوں سے آشنائی ملی تو آہستہ آہستہ قادیانیت کی ’’سچائی‘‘ کھلتی چلی گئی اور تصویر کا دوسرا رخ سامنے آتا چلا گیا۔ اور آخر بات یہاں تک پہنچی کہ ۱۵ جنوری ۱۹۹۹ء جمعۃ الوداع کے مبارک دن راقم دیگر ۱۲ افراد کے ساتھ قادیانیت کو ترک کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ اب یہ تعداد ۱۹ ہوچکی ہے۔
راقم کے اسلام قبول کرنے کے اعلان پر ’’کھسیانی بلی کھمبہ نوچے‘‘ کے مصداق قادیانی