وجہ سے ان سے نفرت کرے۔ وہ متعصب کہلاتا ہے اور جو مذہب سے دوری کی وجہ سے ان سے نفرت نہ کرے۔ وہ پسندیدہ۔
قادیانی اس بات کی تبلیغ کرتے آئے ہیں کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ لہٰذا کوئی قادیانی ہو جائے تو اس پر کسی قسم کا جبر نہیں ہونا چاہیے اور مذہب تو اللہ اور انسان کا آپس کا معاملہ ہے۔ نفرت کی کیا وجہ ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قادیانی جو تعصب اور متعصب شخص سے نفرت کرتے آئے ہیں۔ ان کا خود کردار کیا ہے۔
۱۹۹۹ء میں ہم ۱۳ افراد خاندان نے قادیانیت کو ترک کرکے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو محمود آباد جہلم کی تمام قادیانی جماعت نے نہ صرف منہ موڑ لیا بلکہ سوشل بائیکاٹ بھی کر دیا۔ ہر قادیانی تعصب کی معراج تک پہنچا۔ یہاں تک کہ ہمارے سگے رشتہ دار، تایا زادوں اور ’’بھائیوں نے غیرت قادیانیت‘‘ کی وجہ سے ’’کٹی‘‘ کرلی۔
یہ صورتحال تا حال قائم ہے۔ اس وقت تمام قادیانیوں کی طرف سے مکمل بائیکاٹ، مکمل ناراضگی، بول چال بند، غمی خوشی میں قطع تعلق اور سخت قسم کے تعصب کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ مرزا طاہر احمد دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر دھوکے اور فراڈ سے یہ ثابت کرنے کی کوششیں کر رہا ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ ان سے نفرت کی جاتی ہے۔ ان کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور ان کی جانوں کو خطرہ ہے۔ مرزا طاہر احمد کو اخلاقی اقدار کا بھی پاس رکھنا چاہیے۔ اب دنیا خاصی بیدار ہو چکی ہے۔ جھوٹ کے پائوں کہاں؟ لہٰذا اس پر سواری نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ مرزا طاہر احمد کو اپنی چارپائی کے نیچے دیکھ لینا چاہیے کہ اس کی قوم کا کردار کیا ہے؟ ٹھیک ہے محمود آباد میں ان کی اکثریت یا زور ہے۔ مگر یہ صرف پیالی کے اندر ہی ہے۔ پیالی سے باہر یہ زیرو ہیں۔ ان کو احتیاط کی ضرورت ہے خیر ان کی قوم اپنی بیوقوفیوں کی وجہ سے محمود آباد میں قادیانیت کا مستقبل تاریک کرچکی ہے۔ اب انہیں قادیان، ربوہ یا لندن کا رخ ہی کرنا پڑے گا۔ جتنا زیادہ تعصب کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ ان کی گردن کی رسی اتنا ہی کسی جا رہی ہے۔ عقل و شعور ہوتا تو حالات یہاں تک نہ پہنچتے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ قادیانی انتہاء کے متعصب انسان ہیں۔ اگر یہ متعصب نہیں تو لفظ متعصب کے معنی بدلنے پڑیں گے۔ ان کے مقابلے میں مسلمانوں میں تعصب کچھ بھی نہیں۔ قادیانیوں سے تقریباً تمام مسلمان روزمرہ کا میل جول رکھتے ہیں۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۵ فروری ۲۰۰۱ئ)