اگر چودہویں صدی کے آغاز یا تیرہویں صدی کے آخری دور میں مسلمانوں کی مذہبی اور علمی حالت کے لحاظ سے مسلمان خاصے کمزور ہوچکے تھے اور مسلمان دانشور اور مفکر اس فکر میں مبتلا تھے کہ مسلمانوں کا کیا بنے گا؟ قادیانی اس حوالے سے علامہ اقبال، مولانا حالی اور دیگر مفکروں کے اقوال اور اشعار پیش کرتے ہیں جن میں مسلمانوں کی مذہبی زبوں حالی کا رونا رویا گیا ہے اس کو بھی قادیانی جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ دیکھ لو مسلمان دانشور کسی مسیحا کی تلاش میں تھے اور دعا کر رہے تھے کہ یا خدایا مسلمانوں کی حالت کو سدھارنے کے لیے کوئی ’’مسیحا‘‘ بھیج۔ چنانچہ اس موقع کو ’’غنیمت‘‘ جانتے ہوئے مرزاقادیانی کے ’’مسیحا‘‘ بننے کا پروگرام بنایا اور ’’مسیح موعود‘‘ کا دعویٰ کر دیا۔ اب چودہویں صدی کا آغاز ہوتا ہے ایک طرف مرزا قادیانی دعویٰ کرکے ایک نئے سلسلہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔ دوسری طرف مسلمان مرزا قادیانی کے مقابلے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ دونوں قوتیں آگے بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ چودہویں صدی کے آغاز سے برصغیر میں مذہبی قوتیں (اسلامی قوتیں) طاقت پکڑنا شروع کرتی ہیں جس کا ایک بڑا مظاہرہ پاکستان کے لیے کوششوں اور بعد میں پاکستان کے وجود کی شکل میں ہوا کہ کروڑوں کے حساب سے مسلمان یکجا ہوگئے اور اسلامی تعلیم اور عمل کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم مل گیا۔ پھر ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ مولانا مودودی میدان میں آئے اور ایک تحریک جماعت اسلامی کی شکل میں چلا دی۔ یہ جماعت ساٹھ سال سے مسلمانوں کو متحرک کرنے کے لیے اہم رول ادا کر رہی ہے۔ اسلام کی تبلیغ اور تنظیم پر زور دیا جاتا ہے۔ خصوصاً جوانوں کو علمی میدان میں آگے بڑھانا اور منظم کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ہزاروں لاکھوں اسلامی کتابیں ان کے ذریعہ چھپ کر پوری دنیا میں تقسیم ہو چکی ہیں۔ چودہویں صدی کے آغاز سے ہی مجلس احرار اسلام اٹھ کر پورے برصغیر پر چھا گئی اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا۔ ایک گروپ تبلیغی جماعت کے طور پر سامنے آیا یہ بھی چودہویں صدی کا تحفہ ہے کہ مسلمانوں میں تبلیغ کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ایک ایسا گروپ پیدا ہوا جو اپنا آرام و سکون چھوڑ کر اپنی دنیاوی حیثیت کو بالائے طاق رکھ کر خانہ بدوشوں کی طرح بستر اٹھائے اپنی انا، جذبات کی قربانی دیتے ہوئے گلی گلی، شہر شہر ہفتوں اور مہینوں کے لیے اپنے شہر اپنے علاقے اپنے رشتہ داروں اور اپنے بیوی بچوں سے دور نکل جاتا ہے اور ایک ایک دروازے پر دستک دے کر نماز کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور عملی تربیت کی طرف زور دیتا ہے۔ آج ان کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ جاری ہے۔