ہے تو اس کے مطابق نہ تو یہ امام مہدی کی پیش گوئی بنتی ہے اور نہ ہی عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ ظہور کے متعلق ہے۔ نہ ہی حدیث میں یہ بات ہے پھر ایک فرد یا کئی افراد کا ذکر ہے اس کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ ایک امام مہدی ہوگا یا کئی امام مہدی ہوں گے کیا قادیانی اس حدیث کی بناء پر کئی اور امام مہدیوں کو ماننے کے لیے تیار ہیں؟ نہیں یقینا نہیں بلکہ سو سالہ تاریخ جواب دے چکی ہے کہ کئی امام مہدی کے دعوے دار آئے مگر قادیانیوں نے کسی کو بھی نہیں مانا۔
امام مہدی کے متعلق قادیانیوں کے پاس کوئی واضح حدیث نہیں جس کے مطابق مرزا قادیانی کو امام مہدی ثابت کرسکیں کیونکہ جتنی بھی احادیث ہیں امام مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام دونوں کو اکٹھا لا رہی ہیں۔ قادیانیوں نے ہاتھ پائوں مار کر ابن ماجہ کی ایک حدیث تلاش کرلی جس میں ہے، نہیں امام مہدی مگر عیسیٰ، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ مہدی نہیں ہیں۔ یعنی دونوں ایک وجود ہیں اگر یہ حدیث اسی طرح ہے اور سچی ہے تو پھر درجنوں دوسری احادیث کا کیا کریں گے جو ان دونوں کو الگ الگ کرتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایک کو نظر انداز کریں گے اور درجنوں کے اجتماعی فیصلے کو مانیں گے۔ قادیانیوں نے تو اس حدیث کو اس طرح لیا جس طرح بوڑھی مائی جو کسی حادثے کی وجہ سے بے ہوش تھی اور لوگ اس کے بارے میں مختلف مشورے دے رہے تھے اور مائی بے ہوش پڑی تھی۔ جونہی کسی دور کھڑے شخص نے کہا کہ اسے دودھ میں جلیبی ڈال کر دو تو مائی فوراً بول پڑی کہ اپنی باتوں میں لگے ہو۔ اس شخص کی بات بھی تو سنو یعنی اپنے مطلب کی بات دور سے نکال کر لے آنا مائی کے قصے کا خلاصہ ہے۔ قادیانیوں کو یہ ایک حدیث تو نظر آئی مگر درجنوں کے حساب سے دوسری احادیث نظر نہ آئیں۔
درجہ بالا بحث سے یہ بات سامنے آئی کہ نہ ’’رجل اور رجال‘‘ میں امام مہدی کی پیشین گوئی ہے اور نہ امام مہدی کی صورت میں وہ ایک وجود ہے۔ وہ جب بھی آئیں گے دو وجود ہوں گے اب اس حدیث کا کیا کریں۔ جس میں احیاء اسلام کی پیشن گوئی ہے اور دیگر مسلمان دوسری احادیث اور روایات کی بنا پر اس ایمان پر قائم ہیں کہ اسلام کا احیاء ہوگا اور امام مہدی نازل ہوں گے۔
احیاء اسلام کی پیشین گوئی پوری ہوگی
مسلمانوں کے لیے یہ ایک خوشخبری کی حیثیت رکھتی ہے کہ پیشین گوئی پوری ہوچکی ہے مایوسی کی ضرورت نہیں اور چودہویں صدی کو نہ ختم ہونے کا آئیڈیا دے کر تمسخر کا موقع دینے کی ضرورت نہیں۔