آنحضرتﷺ نے زکوٰۃ کے مصرف کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’توخذ من أغنیائہم وترد فی فقرائہم (ابوداؤد ج۱ ص۱۵۹)‘‘ {(مال زکوٰۃ) ان کے اغنیاء سے لے کر ان کے فقراء پر خرچ کیا جائے۔} چنانچہ اس حکم سے آپﷺ نے اس اعتراض وبدگمانی کا دروازہ ہمیشہ کے لے بند کر دیا اور واضح کر دیا کہ زکوٰۃ وصدقات کے اجراء سے مقصود اپنی ذات یا خاندان کی معاشی آسودگی نہیں۔ بلکہ ان کے فوائد ومنافع، زکوٰۃ وصدقات دینے والے مسلمانوں کے غریب وفقیر متعلقین ہی کی طرف لوٹائے جائیں۔
۴… چونکہ جو لوگ بلاضرورت مانگ کر یا زکوٰۃ وصدقات پر زندگی گزارنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ عموماً ان میں تقویٰ، طہارت، حمیت، غیرت، شجاعت اور دوسرے اخلاق فاضلہ برقرار نہیں رہتے یا کم ازکم کمزور پڑ جاتے ہیں اور عام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ عام طور پر ایسے لوگوں کی ہمتیں پست ہوجاتی ہیں۔ وہ محنت، مشقت اور کسب مال سے جی چراتے ہیں۔ عیش کوشی، راحت پسندی اور آرام طلبی ان کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے۔ سستی وکاہلی ان کے رگ وریشے میں سرایت کر جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ایسے لوگ معاشرے میں بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے۔ اس لئے اندیشہ تھا کہ کہیں خاندان نبوت کے دشمن اس کو آڑ بنا کر ذات نبوی کے خلاف زبان طعن کھول کر اپنی دنیا وآخرت نہ برباد کر بیٹھیں۔
انسانوں کے دین وایمان کی بربادی کے اسی خطرے کے پیش نظر آنحضرتﷺ نے اپنی آل واطہار اور خاندان کے لئے زکوٰۃ وصدقات کو حرام قرار دے کر اپنی آل، اولاد اور خاندان پر معاشی وسعت کے دروازے بند کر کے ایک طرف ان کے لئے معاشی تنگی پیدا کی تو دوسری طرف بہت سوں کے ایمان واسلام کو بربادی سے بچا لیا۔
۵… پھر اس کا بھی امکان تھا کہ کہیں میرا خاندان محض قرابت نبوی کی وجہ سے لوگوں کی زکوٰۃ وصدقات کو اپنا حق نہ سمجھ بیٹھیں یا کہیں اس کی نگاہ لوگوں کے مال، زکوٰۃ وصدقات پر ہی نہ ٹک جائے۔ اس لئے زکوٰۃ وصدقات کو سرے سے ان پر حرام قرار دے دیا گیا۔
۶… اس کے علاوہ عین ممکن ہے کہ خاندان نبوت پر زکوٰۃ وصدقات حرام قرار دینے کی یہ حکمت ہو کہ میرا خاندان ذلیل دنیا اور معمولی رزق کی خاطر مسلمانوں کی نگاہ میں ذلیل وخوار نہ ہو جائے یا لوگوں کی زکوٰۃ وصدقات پر تکیہ کر کے حصول رزق میں کاہل وسست نہ پڑ جائے۔ اس لئے آپﷺ نے ان پر زکوٰۃ وصدقات کو حرام قرار دے کر انہیں محنت ومجاہدے سے بقدر کفایت