فیصد آبادی قادیانی نہیں ہوسکی۔ پاکستان میں ایک فیصد سے بھی کم۔ ہندوستان فیصد ہی نہیں لکھا جاسکتا۔ آج کل کے قادیانیوں کے ’’مقدس شہر‘‘ لندن جہاں ۱۹۲۴ء سے باقاعدہ قادیانی مشن قائم ہے۔ لندن کے مقامی لوگوں (گوروں) میں سے ایک ہزار میں سے ایک آدمی نے بھی قادیانیت قبول نہیں کی، شاید دس ہزار میں سے بھی ایک آدمی نے قبول نہیں کیا تو یہ امام مہدی کیسے نکلے جن کی وجہ سے کوئی انقلاب برپا نہ ہوا نہ اسلام نے ترقی کی۔ نہ منفی قوتیں ختم ہوئیں؟
اگر یہی کچھ امام مہدی نے کرنا تھا تو اس کے لیے خدا کے رسول حضرت محمدﷺ کو بار بار امام مہدی کے ظہور، علامات، کامیابیوں، ذمہ داریوں کو بتانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ مسلمانوں بزرگوں کویا علماء اسلام کو امام مہدی کے انتظار کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اگر یہ کام امام مہدی کے شایان شان تھے تو اس معیار کے کئی اور ’’امام مہدی‘‘ آچکے ہیں مثلاً مرزاقادیانی کی وفات کے ۳۰ سال بعد ۱۹۴۰ء میں مولانا مودودی صاحب نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اور اس تیزی سے جماعت کو آگے بڑھایا کہ ۱۹۴۷ء میں تحریک پاکستان میں اس کاایک رول بھی نظر آنے لگا۔ ۱۹۵۳ء میں یعنی اپنے آغاز کے صرف ۱۳ سال بعد تحریک ختم نبوت بھی بہت ہی نمایاں کام کرنے والی جماعت بن کر سامنے آئی۔ اس کے بعد بڑی تیزی کے ساتھ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) کشمیر (آزاد، مقبوضہ کشمیر) میں بڑی مضبوط جماعتیں بن گئیں۔ اب ہر شہر میں ان کی تنظیم اور خاص افرادی قوت موجود ہے بلکہ ۱۹۷۰ء سے یہ سیاسی پلیٹ فارم پر ایک الگ جماعت کے طور پر الیکشن تک لڑنے کے لیے سرگم عمل ہے۔ گویا اتنی افرادی قوت حاصل کر چکی ہے کہ الیکشن کے لیے اپنے آپ کو ’’فٹ‘‘ سمجھتی ہے۔ مولانا مودودی صاحب نے ایسے نظریات پیش کیے جو عام مسلمانوں سے ہٹ کر تھے جس کی وجہ سے وہ ایک الگ جماعت کو سامنے لے کر آئے قادیانی جماعت کے مقابل ان کی ترقی کئی سو گنا زیادہ ہے بلکہ ہزار گنا زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے تو مولانا مودودی صاحب مرزاقادیانی سے بہتر امام مہدی ثابت ہوتے ہیں۔
مولانا قاسم نانوتوی صاحب نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد مرزاقادیانی کی طرف سے جماعت کی بنیاد رکھنے سے صرف نو سال قبل یعنی ۱۸۸۰ء میں رکھی وہ نہ مجدد کے دعوے دار تھے اور نہ ہی امام مہدی کے۔ مگر وہ مرزاقادیانی کی جماعت کے ’’ساتھ ہی میدان میں آئے اور اس قدر تیزی سے ترقی کی کہ آج پاکستان میں دیو بند مکتبہ فکر کے مدرسے، عبادت گاہیں جگہ جگہ نظر آئیں گی مگر اس کے مقابل پر ’’امام مہدی‘‘ کی جماعت دور دور تک نظر نہ آئے گی۔ ان کی عبادت گاہیں