ان کو قبول کیا تو یہ کیا انقلاب ہوا۔ اگر ایک ہزار میں سے ۸۰۰ افراد قبول کرتے تو کچھ بات بنتی۔ پوری دنیائے اسلام کے حوالے سے مرزاقادیانی کا آنا نہ آنا ایک برابر نظر آتا ہے کیونکہ آج بھی پاکستان کے بہت سے ایسے علاقے موجود ہیں جن سے اگر قادیانیت کے بارے میں سوال کریں تو نہ انہوں نے قادیانیت کا پیغام سنا ہوگا اور نہ ہی انہیں آج تک کسی قادیانی سے واسطہ پڑا ہوگا۔ بہت سے ایسے اسلامی ممالک ہیں جہاں ایک قادیانی کا پیغام ایک سو سال گزرنے کے باوجود نہیں پہنچا۔ اگر مرزاقادیانی واقعی اس دور کے امام مہدی تھے تو ان کی زندگی میں ہی برصغیر میں ۳۳ فیصد سے زائد افراد قادیانیت کو قبول کرتے اور بعد میں باقی ۶۶ فیصد بھی قبول کرتے جبکہ اسلامی ممالک میں تو سب سے زیادہ پذیرائی ملنی چاہیے تھی کیونکہ عرب یا اسلامی ریاستوں میں مسلمان برصغیر کے مسلمانوں کی نسبت زیادہ اسلام کو سمجھنے والے اور اسلامی تنظیم، تعلیم کے قریب تھے۔ وہ بہتر طور پر سمجھ سکتے تھے کہ آنے والے امام مہدی یا مسیح موعود کے بارے میں اسلامی لٹریچر کیا کہتا ہے؟
قرآنی آیات یا احادیث کی عربی عبارت کا ترجمہ یا مفہوم وہ بہتر سمجھ سکتے تھے۔ عربوں کی طرف سے انہیں قبول نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ قرآنی آیات یا احادیث کے مفہوم کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ اسلام کا آغاز بڑی ہی کمزور حالت سے ہوا۔ حضرت محمدﷺ کے دعویٰ نبوت کے ۱۳ سال تک اسلام نے کوئی خاص ترقی نہ کی۔ اس دوران شعب ابی طالب کا تین سالہ دور بھی گزرا۔ خاموشی سے تبلیغ کرنے اور آہستہ آہستہ اپنے پیغام کو آگے پہنچانے کا سلسلہ تیرہ سال تک چلتا رہا۔ گویا ۴۰ سال کی عمر میں دعویٰ کیا اور ۵۳ سال کی عمر تک کوئی خاص کامیابی نہ ملی اس کے بعد مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ جانا پڑا۔ مگر اگلے دس سالوں میں اسلام نے اس تیزی سے ترقی کی کہ نہ صرف اپنے علاقوں مکہ، مدینہ میں اسلام پھیلا بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی اسلام پھیل گیا۔ حضورؐ کی وفات کے وقت اسلام مکہ، مدینہ اور بہت سے شہروں میں مکمل غلبہ کے بعد بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی بڑی قوت کے ساتھ پہنچ چکا تھا اس کے بعد خلفائے راشدین کے ۳۰ سالہ دور میں ملکوں کے ملک فتح ہوئے۔ اتنا زبردست پھیلائو اس دور میں ہوا جب نہ تو ذرائع آمد و رفت تھے۔ نہ ٹیلی کمیونیکیشن کا کوئی نظام تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس دور میں جو ترقی ۵۰ سالوں میں ہوئی اتنی ترقی اس دور میں نئی سہولتوں کی وجہ سے پانچ سال سے بھی کم عرصے میں ہوتی۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی کے دعوے کے بعد ان کے اپنے ۱۹ سالہ دور میں صرف برصغیر میں ایک فیصد سے بھی کم لوگوں نے قبول کیا اور ان کے بعد ان کے جانشینوں (خلفائ) کے ۹۰ سالہ دور میں بھی ایک فیصد آبادی نے ان کو قبول نہ کیا۔ دنیا میں جن ممالک میں پیغام پہنچا وہاں کسی بھی ملک میں ۵ فیصد