اور مدرسے غازیوں اور طلباء سے پر ہوں گے۔ مگر ’’امام مہدی‘‘ کی جماعت کی عبادت گاہیں‘‘ تالوں اور جالوں‘‘ کے قبضے میں نظر آئیں گی۔ ان کے مدرسے جہاں قرآن مجید حفظ ہوتا ہے ہر شہر میں کئی ہوں گے۔ جبکہ ’’امام مہدی‘‘ کی جماعت کا مدرسۃ الحفظ پورے پاکستان میں صرف اور صرف ایک ہے جہاں کل طلباء ۶۰ سے زائد نہیں ہوتے جبکہ مولانا قاسم نانوتویؒ صاحب کی قائم کردہ جماعت کے ایک شہر میں کئی ساٹھ طلباء ہوں گے جو قرآن مجید حفظ کر رہے ہوں گے اور پورے پاکستان میں کم از کم سو گنا زیادہ ہوں گے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ مرزاقادیانی امام مہدی تھے اور انہوں نے امام مہدی کے معیار کے مطابق اپنے فرائض انجام دے کر وہ انقلاب برپا کردیا جس کا امام مہدی والی پیشگوئیوں میں ذکر تھا تو پھر ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘ والی بات ہوگی جو کہ سراسر حضرت محمدﷺ کی توہین اور گستاخی کے مترادف ہے جو کہ کسی بھی مسلمان کو منظور نہیں۔
جس امام مہدی کا احادیث میں ذکر ہے اس امام مہدی نے پوری دنیا کے لیے آنا تھا۔ مرزاقادیانی نے بھی مہدی آخر زمان کا دعویٰ کیا تو کیا وہ پوری دنیا کے لوگوں کو اپنا پیغام پہنچا کر ان کو ’’راہ راست‘‘ پر لاسکے کیا دنیا نے اس کو قبول کیا؟
۱۹۸۹ء میں قادیانی جماعت نے اپنے قیام کا صد سالہ جشن منایا۔ اس کے چار سال بعد ۱۹۹۳ء میں مرزا طاہر احمد نے اعلان کیا کہ بعض ریکارڈ رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں سوا کروڑ ہو چکے ہیں اس میں جو کمی رہ گئی ہے اس کے لیے عالمگیر بیعت کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
قادیانی جماعت سو سال میں صرف سوا کروڑ افراد کو قادیانی بنا سکی جبکہ ۵۷۵ کروڑ آبادی ابھی تک ان کو ماننے سے انکاری ہے گویا پانچ سو میں سے صرف ایک نے قبول کیا یہ تو ایک فیصد بھی نہیں ہے خیر اب عالم گیر بیعت کے ذریعہ ’’اعداد و شماری تبلیغ‘‘ کے نتیجہ میں کروڑوں افراد قادیانی ہو رہے ہیں وہ وقت اب دور نہیں جب پاکستان کے ہر ضلع، شہر میں ہر قادیانی ہر سال کروڑوں کے حساب سے بیعتیں کروائے گا۔ جب پاکستان میں موجود قادیانی ہر سال کروڑوں کے حساب سے قادیانی بنائے گا تو پھر کیا بنے گا؟ معلوم نہیں مگر یہ معلوم ہے کہ دنیا میں موجود ۵ ارب سے زائد غیر قادیانی اسی طرح موجود رہیں گے۔
یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ ایک سو سال میں ۵۰۰ میں سے صرف ایک فرد نے ’’امام مہدی‘‘ کو قبول کیا جو کہ مرزاقادیانی کی ’’مہدویت‘‘ کو بے بنیا ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۲۷ نومبر ۲۰۰۰ئ)