ان کی کتابیں تین دفعہ پڑھی ہوں۔ گویا قادیانیوں کی ۹۹ فیصد تعداد نے متکبر بننا تو گوارا کرلیا لیکن کتابیں پڑھنا گوارا نہ کیا میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ۱۹۸۲ء میں یونیورسٹی کے دور میں، میں نے عزم کیا کہ کم از کم ایک بار ساری کتابیں پڑھ لوں گا۔ چھوٹی چھوٹی ۸۔۱۰ کتابیں پڑھ لیں مگر کوئی مزہ نہ آیا جب بڑی کتابوں پر پہنچا تو آتھم، ڈوئی کے جھگڑوں سے کتابوں کو پرپایا۔ بس ہمت جواب دے گئی اور فیصلہ کیا کہ آئندہ کتابیں نہیں پڑھنی اگر پڑھ لیں تو قادیانیت میں مزہ ختم ہو جائے گا۔ اس وقت کیونکہ میں جماعت کا دیوانہ تھا پنجاب یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کے حلقہ خدام الاحمدیہ کا زعیم (قائد) تھا۔ ۱۵ کلو میٹر پر پھیلی قیادت ماڈل ٹائون لاہور کا ناظم تعلیم خدام الاحمدیہ تھا اور ضلع لاہور کی مرکزی مجلس عاملہ میں نائب اصلاح و ارشاد تھا۔ میں کیونکہ پیدائشی قادیانی تھا۔ میرے والد بھی پیدائشی قادیانی تھے۔ ہمارے خاندان میں قادیانیت رچی بسی تھی۔ ہمارے خون میں بھی قادیانیت تھی۔ لہٰذا میں گوارا نہ کرسکتا تھا کہ جماعت کا مزہ خراب ہو جائے۔ یہی وجہ ہوگی کہ ۹۹ فیصد قادیانیوں نے کتابیں پڑھنا گوارا نہ کیا اگر یہ نہیں تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ۹۹ فیصد قادیانیوں نے اپنے نبی کی بات، تاکید یا حکم کو نہیں مانا۔ مرزا قادیانی نے اپنے دعوے کے بعد اپنی نئی جماعت قائم کرلی اپنے ماننے والوں کو اپنے قریب تر کرتے چلے گئے جلسہ سالانہ اور دیگر پروگراموں میں بلا کر اپنی ہدایت دیتے رہے۔ لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کا ایک ’’تیر با ہدف‘‘ طریقہ اختیار کیا کہ انہوں نے مہمان خانے کے نام سے ایک لنگر چلا دیا جو بھی آتا اسے تین وقت کا مفت کھانا رہائش اور دیگر سہولیات ملتیں۔
اب قادیانیوں کا مرزا قادیانی کے پاس جانا یقینی تھا جب کسی کو پتہ ہو کہ فلاں کے پاس جائوں گا تو ہر قسم کی سہولت ملے گی تو آدمی وقتاً فوقتاً چکر لگا سکتا ہے۔ مرزا قادیانی نے ’’انسانی کمزوری‘‘ کو خوب ایکسپلائٹ کیا ان کا ایمان بھی تھا کہ آنے والے مہمانوں کی ’’تواضع‘‘ کی جاتی، اس تواضع کا نتیجہ تھا کہ لوگ اس طرف تیزی سے مائل ہوئے۔
ویسے یہ ’’تواضع‘‘ والا فلسفہ ہی ہمارے سرکاری اداروں میں عرصے دراز سے لاگو ہے جس کسی سے کوئی کام لینا ہے، کسی کام کے لیے منوانا ہے، جو کوئی بھی غلط کام کروانا ہے تو اس پر تواضع کا فارمولا لگایا جائے کام فوراً ہو جائے گا آدمی کا غصہ، گلہ، شکوے شکایتیں، ’’تواضع‘‘ کی گرمی سے پگھل کر باہر نکل جاتی ہیں آدمی ’’ہولا‘‘ ہو جاتا ہے پھر جس طرف مرضی لے جائیں۔
مرزا قادیانی نے اس انسانی کمزوری کو کیش کروانے کے لیے مستقل طور پر مہمان خانہ (دارالضیافت) قائم کر رکھا ہے۔ جو اب بھی ربوہ (چناب نگر) میں موجود ہے جہاں ہر آدمی کو بغیر