گزاری ان کے پاس تو کتابیں شائع کرنے کے لیے پیسے نہ تھے، مہمانوں کو کھانا کھلانے کے لیے پیسے نہ تھے، ان کے لیے چندہ مقرر ہوا پھر ان کے بیٹے مرزا محمود نے یا مرزا بشیر احمد ایم اے نے بھی کوئی ایسا کاروبار نہ کیا جس سے مالی فوائد ملتے بلکہ جب ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کرکے آئے ہیں تو دولت کے انبار ساتھ لے کر آئے ہیں جس سے سندھ کے علاقے میں ہزاروں مربع زمین خریدی۔ ربوہ آباد کیا، کوٹھیاں، بنگلے بنے، ربوہ کے قریب احمد نگر اور دیگر علاقوں میں مربعے خریدے گئے مرزا طاہر احمد کے بھی احمد نگر کے پاس مربعے ہیں۔ ۱۹۸۲ء میں جب یہ خلیفہ بنے تو ان کے قریبی ان کی سادگی کی مثال دیتے ہوئے بتاتے تھے۔ احمد نگر میں اپنے مربعوں پر یہ سائیکل پر جایا کرتے تھے اس سے ہمیں پتا چلا کہ ان کے بھی مربع موجود ہیں یہ تو پہلے ہی مجھے معلوم تھا کہ احمد نگر میں مرزا فیملی کی خاصی زمین ہے ذرا غور کیا جائے کہ نہ تو مرزا طاہر احمد صاحب نے خود کوئی کاروبار کیا کہ اس سے اتنی آمدنی ہوتی کہ وہ اتنی جائیداد خرید سکتے نہ ہی کوئی ایسی نوکری کی، نہ ہی ان کے والد مرزا محمود احمد (دوسرے خلیفہ) نے کوئی ایسا کاروبار کیا اور نہ ہی کوئی ایسی نوکری کی پھر یہ جائیدادیں کیسے وجود میں آ گئیں؟ اگر کوئی روحانی معجزہ ہوا ہے تو جماعت کے غرباء کو بھی ایسے عوامل سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ بھی جائیدادیں دعائوں یا روحانی معجزوں سے حاصل کریں۔
اصل میں نہ تو جماعت میں کوئی احتساب کا ادارہ ہے اور نہ ہی کوئی پوچھنے کی جرأت کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری ادارہ میں مداخلت کرسکتا ہے کیونکہ پھر جماعت پروپیگنڈہ کرتی ہے کہ ہمارے مذہبی معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے۔
جماعت کی طرف سے اسلامی عبادات میں سے صرف نماز پر زور دیا جاتا ہے کہ ’’بیت الذکر‘‘ میں آ کر نماز پڑھا کرو کیونکہ جب افراد جماعت نماز کے لیے عبادت گاہ میں آئیں گے تو تب ان کو چندے کے لیے کہا جاسکے گا عبادت گاہ میں بلانا چندے کی وصولی کے لیے ضروری ہے شاید قادیانی اس سے اختلاف کریں تو تجربہ یوں کریں کہ ایک قادیانی باقاعدگی سے چندہ دے مگر سال میں ایک بار بھی عبادت گاہ میں نہ آئے جماعت کو کچھ اعتراض نہ ہوگا۔ میں نے جن پندرہ چندہ دہندگان کا پہلے ذکر کیا ہے ان میں سے دو ایسے بھی تھے جو صرف چندہ دیتے تھے، عبادت گاہ میں نہیں آتے تھے، جماعت کو ان پر کوئی اعتراض نہ تھا پھر کچھ ایسے بھی نکلے جو سال کا چندہ ایک بار ہی ادا کر دیتے مگر عبادت گاہ میں صرف عید کے دن آتے جماعت کی نظر میں وہ ’’مخلص قادیانی‘‘ تھے بلکہ اب بھی ہیں۔
میری اس تحریر سے کسی قادیانی کو مائنڈ نہیں کرتا چاہیے وہ ضرور چندہ دیں، دیتے رہیں