تیزی سے قادیانیت سے دور ہو رہے ہیں۔ مسلمان علماء کو اس طرف کوئی خاص محنت کی ضرورت نہیں یہ خود ہی اپنے انجام کو پہنچنے کے لیے سرگرداں ہیں۔
ایک طرف جماعت ’’اب کے مار‘‘ والی پالیسی اپنا کر یہ تاثر دیتی ہے کہ ہمارا تو کچھ نہیں بگڑا۔ دوسری طرف پوری دنیا کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ ہم پر بہت ظلم ہو رہا ہے اور جماعت کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ حالانکہ دوسری حالت زیادہ قابل قبول ہے۔ پہلی صورت تو صرف ’’دم کو سیدھا کرنے والی بات‘‘ کے مصداق یہ تاثر دیا جا رہا ہے۔
قادیانیوں نے مختلف وقتوں میں خفیہ طریقہ سے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ ۱۹۸۴ء کے آرڈیننس کے بعد دسمبر کے مہینہ میں جماعت نے دو تین تحریروں کے نمونے تیار کرکے مختلف جماعتوں میں بھجوائے اور ہدایت کی کہ ٹیلی فون ڈائریکٹریوں سے پتہ جات لے کر لوگوں کو خطوط لکھے جائیں۔ جس میں لوگوں کو آرڈیننس کا حوالہ دے کر مسلمانوں کی ’’غیرت‘‘ کو جگا کر حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جانی تھی۔
راولپنڈی کے قادیانیوں کو کہا کہ آپ سندھ، کراچی کے افراد کو خط لکھیں اور کراچی کے لوگوں سے کہا گیا کہ آپ پاکستان کے شمالی حصوں کی طرف خطوط بھیجیں۔ خط کے نیچے کسی نہ کسی کا ایڈریس دیا جاتا۔ میں خود اس پروگرام میں شامل رہا ہوں مگر خطوط کے بعد رزلٹ مایوس کن رہا۔ لہٰذا یہ سکیم فیل ہوگئی۔
مختلف وقتوں میں مختلف سربراہان حکومت کو باقاعدہ سکیم کے مطابق خطوط لکھے جاتے رہے۔ بھٹو کو پھانسی دلوانے کے لیے جنرل ضیاء الحق کو بیرون ملک سے خطوط لکھے گئے۔ جنرل ضیاء الحق کو یہ تاثر دیا گیا کہ بیرون ملک میں موجود پاکستانی بھٹو کو زندہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے قادیانیوں کو ’’نکیل ڈالی‘‘ تو جونیجو صاحب کے برسر اقتدار آنے پر اسے خطوط لکھوائے گئے کہ آٹھویں ترمیم کو ختم کروائو اور جنرل ضیاء کے قادیانیوں کے خلاف آرڈیننس کو ختم کرو۔ اس وقت تک مرزا طاہر لندن جا کر اپنا وہاں ہیڈ کوارٹر بنا چکے تھے۔ جونیجو صاحب یہ کام نہ کرواسکے۔ جنرل ضیاء کی وفات کے بعد غلام اسحاق خان کو خطوط لکھے گئے ان پر یہ ظاہر کیا گیا کہ بیرونِ ملک پاکستانی انسانی حقوق کے حوالے سے اس آرڈیننس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ پھربے نظیر بھٹو پر پریشر پڑا مگر کوئی بھی آٹھویں ترمیم ختم نہ کروا سکا۔ جب نواز شریف صاحب پہلی دفعہ وزیراعظم بنے ان پر آٹھویں ترمیم ختم کروانے کے لیے دبائو ڈالا گیا۔ جماعت یہ سمجھتی تھی کہ آٹھویں ترمیم ختم ہونے سے ہمارا متعلقہ آرڈیننس بھی ساتھ ہی ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا جماعت ترمیم