’’ایک حرف ناصحانہ‘‘ کی تقسیم کے بعد مسلمانوں میں اور زیادہ اشتعال پیدا ہو چکا تھا۔ پورے ملک میں قادیانیوں کے خلاف جلوس نکلنے لگے اور قادیانیوں کی اس پکار کہ ’’اب کے مار‘‘ پر مسلمان حرکت میں آچکے تھے۔ کئی شہروں میں تصادم بھی ہوئے۔ سربراہ حکومت جنرل محمد ضیاء الحق پر دبائو پڑا کہ ۱۹۷۴ء میں کی جانے والی ترمیم کی قانون سازی کی جائے۔ اپریل کے مہینہ میں ہر شہر اور ضلع میں جلوس نکلنے شروع ہوگئے اور مسلمانوں کی طرف سے اپریل ۱۹۸۴ء کو اسلام آباد میں ایک فیصلہ کن جلسہ اور پھر جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا گیا۔ مگر اس کا مرحلہ نہ آیا اور جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے ۲۶ اپریل کو ایک آرڈیننس جاری کردیا جس کے مطابق کوئی قادیانی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ اپنے قول و فعل سے بھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کرسکتا۔ اپنی عبادت گاہ کو ’’مسجد‘‘ نہیں کہہ سکتا۔ عبادت کے بلانے کے لیے مسلمانوں کے طریق کے مطابق اذان نہیں دے سکتا۔ نہ ہی مرزا قادیانی کی بیوی کے لیے ’’ام المومنین‘‘ اور ساتھیوں کے لیے ’’صحابی‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرسکتا ہے۔
اس سرکاری حکم کے بعد قادیانی بالکل زمین پر لگ گئے۔ اذانیں بند ہوگئیں۔ مسجد کو ’’بیت الحمد‘‘، ’’دارالحمد‘‘ ’’بیت الذکر‘‘ اور ’’دارالذکر‘‘ جیسے الفاظ میں تبدیل کر دیا گیا۔ صحابی کے لیے ’’رفیق‘‘ کا لفظ استعمال ہونے لگا۔ اپنے آپ کو ’’احمدی مسلمان‘‘ کی بجائے صرف ’’احمدی‘‘ لکھا جانے لگا۔ اخبارات و رسائل میں سے قرآنی آیات بسم اللہ وغیرہ جیسی اسلامی تحریرات کو ختم کر دیا گیا۔ اب ان کے رسائل و اخبارات کو اٹھا کر دیکھیں۔ انہیں دیکھ کر اسلامی نظریات کا ذرا بھر عکس نظر نہیں آئے گا۔ گویا جماعت نے سرکاری حکم کو اولیت دی اور اسلام سے منہ موڑ لیا۔ اب وہ تمام دستاویزات میں مسلمان کی بجائے احمدی لکھتے ہیں۔ اب اگر ۱۰ سے ۲۰ سال تک کی عمر کے قادیانی بچوں اور جوانوں سے پوچھا جائے کہ آپ مسلمان ہیں یا احمدی تو ۸۰ فیصد اپنے آپ کو صرف احمدی کہیں گے۔ اگر یہی پابندیاں مزید ۱۵۔ ۲۰ سال تک رہیں تو قادیانیوں کی پوری نسل اپنے آپ کو احمدی کہے گی اور اذان کو۔ مسجد کو اور دیگر اسلامی شعار کو صرف مسلمانوں سے مخصوص مان لے گی اور اپنے آپ کو بالکل علیحدہ کرے گی۔
اب جس طرح کا یورپ کی طرف قادیانیوں کا ’’بہائو‘‘ ہے اس سے نظر آتا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں قادیانی پاکستان سے ہجرت کر جائیں گے۔ جو نہ جا سکے وہ مسلمان ہو جائیں گے۔ ویسے بھی جوں جوں قادیانی نوجوان تعلیم کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں وہ جماعتوںمیں جاری امیر جماعت اور دیگر عہدیداران کی زیادتیوں سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں اور