کرنے کے خواب دیکھنے لگا کیونکہ ہر قادیانی کو یہ باور کروایا جاتا کہ بہت جلد پوری دنیا کے لوگ قادیانی ہو جائیں گے اور یوں پوری دنیا پر قادیانیوں کی حکومت ہوگی۔
۱۹۸۳ء میں قادیانی تبلیغ کے میدان میں سخت سرگرم تھے۔ اس کے ردعمل پر تحریک شروع ہوئی تو ۱۹۸۳ء کے آخر پر تحریک زوروں پر تھی۔ ۱۹۸۳ء کے جلسہ سالانہ میں مرزا طاہر احمد نے قادیانیوں کو خوب چارج کیا جس سے ان کا مورال بڑھ گیا ۱۹۸۴ء میں مارچ کے مہینہ میں قادیانی جماعت نے ایک کتاب بعنوان ’’اک حرف ناصحانہ‘‘ شائع کی اسے پورے پاکستان میں تقسیم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی۔ میں اس وقت لاہور میں قادیانی ہوسٹل ’’دارالحمد‘‘ (A-134 نیو مسلم ٹائون لاہور) میں ایم ایس سی کے دوران مقیم تھا۔ وہاں ڈیڑھ ہزار کتاب تقسیم کرنے کے لیے ہماری ڈیوٹی لگائی گئی۔ رات کو پروگرام بنا۔ پروگرام کے مطابق ہم صبح اذان سے قبل اٹھے۔ دو دو سو کتاب اٹھائی اور دو دو لڑکوں پر مشتمل 8-7 گروپ فیلڈ میں چلے گئے۔ ہم نے پروگرام کے مطابق گھروں کے اندر، گیٹوں کے نیچے سے کتاب کو اندر پھینکنا شروع کر دیا سورج کے طلوع ہونے سے قبل ساری کتابیں تقسیم ہوگئیں۔ پورے لاہور میں غالباً ۵۰ ہزار تقسیم کی گئیں۔ گلبرگ کے کچھ پرجوش قادیانی نوجوانوں نے سورج نکلنے کے بعد اور مارکیٹیں کھلنے کے بعد لوگوں کے ہاتھوں میں کتابیں تقسیم کیں اور اس سے کچھ تلخیاں بھی پیدا ہوئیں۔ بلکہ چند نوجوانوں کی پٹائی بھی ہوئی اور مقدمات بھی بنے۔ بعد میں اطلاعات ملتی رہیں کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں قادیانیوں پر پمفلٹ تقسیم کرنے پر مقدمات بنے۔ جماعت نے یہ موقف اختیار کیا کہ اپنا موقف پیش کرنے کا ہر ایک کو حق ہے۔ اس میں برا منانے والی کیا بات ہے؟ آپ اس کا جواب دیں؟ اگر دے سکتے ہیں تو؟ جماعت نے اس موقف کا بار بار اظہار کیا۔ دلچسپی کے لیے جماعت کے اس موقف کا عملی مظاہرہ بھی پڑھیے۔
۱۹۹۹ء میں میں اپنے خاندان کے ساتھ قادیانیت کو چھوڑ کر مسلمان ہوگیا اور ایک مضمون بعنوان ’’جماعت قادیانی کی تعداد اور پچاس لاکھ بیعتیں‘‘ تحریر کیا جسے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ’’لولاک رسالے میں اگست میں شائع کیا اور اس کی چند کاپیاں محمود آباد جہلم کے چند قادیانیوں کو بھی ارسال کی گئیں۔ جماعت نے اس کا سخت برا منایا ان کی خواتین نے گالیاں دیں۔ مردوں نے دھمکیاں دیں اور آج تک ان کے مرد اس وجہ سے ناراض ہیں۔ اب کہاں گیا یہ موقف کہ ہر ایک کو اپنا موقف بیان کرنے کا حق ہے؟ اس کا تحریری جواب دینا چاہیے۔ ناراضگی کی ضرورت نہیں اب بھی جماعت اس موقف پر قائم رہتی تو بات تھی۔